مادی ترقی

پروفیسر محمد حسین
یہ حقیقت ہے کہ مادی ترقی کا انجام کا ر دوسروں پر برتری حاصل کرنا ہوتا ہے ہمارے مشاہدات میں یہ بات بار بار آئی ہے کہ مختلف ممالک اپنے اپنے ملک کی ترقی کے لیے کوشاں اور انفرادی ترقی کے لیے کمر بستہ ہیں اس مادی ترقی کے غلام قوموں کو سب سے زیادہ متاثر کیا ہے ۔ کیونکہ گزشتہ دو صدیوں میں سرمایہ دارانہ نظام نے نو آبادیات میں اپنی جڑوں کو مضبوط تر کر لیا ہے۔ انسانوں کی منڈی کو مادی ترقی کی دوڑ میں حصہ لینے پر مجبور کر دیا اور اس سے یہ باور کرایا گیا کہ اگر مادی ترقی نہ کرو گے تو ناکام تصور کئے جاؤ گے۔ اسطرح وہاں کے باشندوں کو اس لا حاصل دوڑ میں الجھا دیا گیا۔ غلام قوموں کو سہانے سہانے خواب دکھائے جاتے ہیں۔ اور ویسے بھی غلام ادھورے خواب دیکھنا پسند کرتے ہیں۔ آج انسانیت جس دور اہے پر کھڑی اپنے انجام کو سوچ رہی ہے شاید ہی ماضی میں اسطرح کا پالا انسانیت کو پیش آیا ہو! اس نظام نے انسانیت کا اس قدر استحصال کیا ہے کہ ماضی بعید و قریب میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ اس نظام کی جڑیں اتنی مضبوط ہو چکی ہیں کہ اس کے ماننے والوں کی ایک بہت بڑی تعداد اس امر پر مجبور ہے وہ دال روٹی کے چکر میں پڑ کر اپنی آقائی روح سے محروم کر دی گئی ہے۔ تاریخ اٹھا کر دیکھا جائے تو ایک ادنی طالب علم بھی جانتا ہے کہ ملک کے فاتحین جب بھی کسی ملک کو فتح کرتے تھے تو اپنی اقدار کو بھی رائج کرتے تھے۔ ان کی تعمیرات ، علم و ادب معاشی و سماجی و تہذیبی خدمات اس بات کا ثبوت ہوتی تھیں کہ وہ ایک نظام کو رائج کرتے آئے ہیں۔موجودہ نظام جس کو عرف عالم میں جمہوریت کہتے ہیں۔ اور اس کا سراورنہ پیر ہیں۔ جب ضرورت پڑتی ہے تو مارشل لاء اور کبھی سول حکومت اور کبھی صدارتی نظام، کبھی جماعتی الیکشن ، کبھی غیر جماعتی اور کبھی منڈی لگتی ہے۔ نہ جانے کیا کیا اس نظام نے گل بڑے کھلائے ہیں۔ ایک غیر شرعی طاقت ایک ظالم سماج اور استحصالی نظام کا بنایا ہوا جال جس میں اپنی مرضی کے قوانین ، ادارے ، ملازموں کی فوج اور حقیقی علم و آگہی سے دور رکھنے کے لیے لعن طعن اور الزامات کی پوچھاڑ، حکمرانوں کے لیے ایک جماعت تشکیل دینا ان کا سب سے بڑا مشن ، ایسے ادارے قائم کرنا جس سے بظاہر روزگار کے مواقع قائم ہوں ۔ درحقیقت اپنے سسٹم کو مضبوط بنانے کے لیے اپنے ہمنواؤں کی فوج بڑھانا انصاف کے نام پر بد نما داغ، کمزورکو پھانسی کے پھندوں پر لٹکانا اور طاقتور کو سلام کہنا اپنے من پسند ثمرات حاصل کرنا اور اپنے اہداف تک پہنچنا چاہیے۔ اس کے لیے پالیسی دوہری ہو یا تہری یا نظریہ ضرورت ہو صراجی طاقتوں کو آلہ کار فراہم کرنا معاشی نظام کو امیر و غریب کے لیے نہ چھوڑنا بلکہ دھونس ، دھاندلی دباؤ کے تحت فیصلے مسلط کرنا نہ ماننے والوں کو باغی قرار دینا قانون کی گرفت میں لانا اور انہیں توہین عدالت میں قید و بلا کرنا لوگوں کو کام کرنے کے لیے تعلیم دینا نہ کہ وہ اپنی ذات کا عرفان اور ذات الیٰ کا شعور حاصل کر سکیں۔گویا جمہوریت کا نظام بھی تجارتی کارخانوں جیسا ہے یہ مصنوعات کو ہی مصنوعات نہیں سمجھتا بلکہ ایسے لوگوں کو بھی مصنوعات سمجھتا ہے خواہ وہ فیکٹری کے اندر کام کرنے والے ہوں یا فیکٹری چلانے والے، برعکس اس کے کہ لوگ زندہ رہنے کے لیے کام کریںیہ سسٹم لوگوں کو زندہ رکھنے کے لیے کام کرواتا ہے۔ اس کی مثالیںیورپ اور امریکہ کے شہریوں کی حالت دیکھ کر لگائی جا سکتی ہے۔ یہ سسٹم لوگوں کو ڈراتا ہے کہ تم تو بڑے خوش قسمت ہو کہ تمہارے پاس نوکری ہے، تمہارے ارد گرد بے روز گاری کا سیلاب ہے، اور لوگوں کو حقیقی علم سے دور رکھا جاتا ہے تاکہ وہ اس غلاموں کی منڈی کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کر سکیں اصول تعلیم، حقیقی علم تک لے کر جاتی ہے۔ اس کے بر عکس تعلیم غیر مُفید ہے۔اس نظام میں پہلے ملکوں کو تاراج کیا جاتا ہے۔ ان کو دانے دانے کا محتاج کر دیا جاتا ہے جب با شعور طبقے کی طرف سے مزاحمت ہوتی ہے تو اس کا صفایا کیا جاتا ہے۔ موجودہ جمہوری نظام آج کے لوگوں کو ڈراتا ہے جو یہ سمجھتے ہیں کہ یہ ہمیں ہماری بنیادوں سے ہی ہلا دے گا۔ ہماری نسلوں کو ہم سے چھین لے گا اور کہتا ہے کہ اسلام کے مقابلے میں خلافت کا نظام لانے کا طریقہ بتاؤ اور ان کے نمائندے آگ بگولہ ہوتے ہیں۔ جب ان کو یہ کہاجاتا ہے کہ یہ جمہوری نظام آپ تو نہیں لائے۔ آپ کے آقاؤں نے یہ نظام آپ کو دیا ہے۔ جب کوئی بات نہ بن سکے تو الزام تراشی پر اترآتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ آپ اللہ کا شکر ادا کریں کہ آپ کے پاس جمہوریت جیسا پھل موجود ہے۔ زرا سوچئے کیا چین جاپان، ایران ، جرمنی ، فرانس ، کے عوام صفحہ ہستی سے مٹ گئے ہیں۔ جو اپنی زبان کے علاوہ گوئی زبان تک بولنا پسند نہیں کرتے باوجود اس کے کہ اقوام کی کوئی حدیں ہی نہیں ہم ہر سال ایک نیا نصاب تعلیم ہم لا چکے ہیں وہ بھی اپنے آقاؤں کی زبان میں ، کیا مذکورہ بالا ممالک اپنی اپنی زبانوں میں اپنے نصاب تعلیم نہیں تیار ہے جب اس نظام میں مختلف نو ایجادیات قائم کرتے ہیں تو ان میں اپنے خود ساختہ نظام کے بیج ہوتے ہیں۔ اور بعد میں انہیں آزادی بھی دی جاتی ہے۔ اورنو آبادیات ان کے اس ڈھونگ کو سمجھنے کے بجائے یہ خیال کرتی ہیں کہ اُنہوں نے اپنی انتھک کوششوں سے آزادی حاصل کی ہے۔ ان کی انتھک کوششوں کے دوران وہ اپنے ان قیمتی ہیروں (لوگوں) سے بھی محروم کر دیے جاتے ہیں۔
جو واقعی کسی قوم کا سرمایہ ہوتے ہیں اور ان کی عدم موجودگی میں قومیں اپنی نسلوں کی نسلیں اس نظام کی بھینٹ چڑ ھا دیتی ہیں۔ مثلاً اس نظام کا ذیلی نظام ، تعلیمی نظام ہی لے لیں ہم اپنے ہاتھوں اپنی نسلوں کو نئے نئے مضامین پڑھاتے ہیں۔ اور کاغذ کے ٹکڑوں یعنی ڈگریوں کو دکھا دکھا کر اتراتے پھرتے ہیں۔ کہ ہم نے دُنیا کی دوڑ میں سبقت حاصل کر لی ہے۔ اور یہ ہر گز نہیں سوچتے کہ ہم اپنی نسلوں کو بے ہوشی کی زندگی گزارنے پر مجبور کر دیا ہے۔ اور جیسے یہ نظام ظلم کی چکی میں پیس کر ہمیں دو وقت کا آٹا فراہم کر یگا اور ہمیں بار بار یہ احسان دلائے گا کہ تم روزگار کی کشتی پر سوار ہو کر کشتی کے باہر بے روزگاری کا طوفان ہے۔ خبردار کشتی سے ہر گز نہ اترنا یہاں تک کہ وہ نسلیں اپنی طبعی یا حادثاتی عمر کو دلنچ جاتی ہیں۔ یہ نظام ایسے لوگوں کو پینے ہی نہیں دیتا جو شعوری آنکھ سے اس نظام کا مطالعہ کرتے ہیں۔ اس کو رجعت پسند بُنیاد پرست مذہب پرست، یا انتہا پسند قرار دے کر با پسند یدہ شخصیت قرار دے دیا جاتا ہے۔ اس نظام کے ذریعے زیادہ سے زیادہ لوگوں کو شامل کیا جاتا ہے تاکہ عام آبادی پر کنٹرول حاصل کیا جا سکے۔ اور اس طرح مربوط کیاجائے کہ اس کے مخالفین ایک قلیل جماعت بن کر رہ گئے ہیں۔ جو اس نظام کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتے۔
البتہ جو اس نظام سے ٹکر اتے ہیں وہ خود پاش پاش ہو جاتے ہیں۔ اگر اس نظام کے خلاف زیادہ لوگ کھڑے ہو جائیں تو ان کی سرگرمیوں کو مشکوک قرار دے کر ان کے رہنماؤں کو امن عالم کا دُشمن قرار دیکر جیلوں میں ٹھونس دیا جاتا ہے۔ جوں جوں یہ نظام مضبوط ہوتا جاتا ہے تعلیم کا معیار گرتا چلا جاتا ہے جس سے اُستاد اور طالب علم کا رشتہ ایک کاروباری رشتہ بن جاتا ہے۔ اس سے طالب علم حقیقی علم سے محروم ہو رہا ہے۔ طالب علم کو ایسی غیر مند تعلیم دی جارہی ہے جو اس نظام کے لیے سدھائے ہوئے طوطے کا کام کر سکے حقیقی سوچ و فکر بے معنی لفظ بن کر رہ گئے ہیں۔ اس نظام کے بانی اس نظام تعلیم پر خوش ہیں اس دوڑ میں جب ڈگریاں لئے بے روزگار نوجوانون خاک چھانتا ہے تو گویا اندھیری راہوں میں ٹامک ٹوئیاں مارتا ہے۔ تو ایسے میں یہ نظام چال ڈال کر اسے آسانی سے شکار کر لیتا ہے۔
اب وہ اپنی ساری ز ندگی اس نظام کی اشاعت و تبلیغ میں گزار دیتا ہے۔ اور عین عبادت سمجھ کر وہ اس کام کو کرتا ہے۔ اسے یہ علم بھی نہیں ہوتا کے وہ اس نظام کا آلہ کار ہے جس کی جڑیں انسانیت کے خون سے تربتر ہیںa

اپنا تبصرہ بھیجیں