✒️ ڈاکٹر زاہد عباس چوہدری
17 جون 2025
ایران اور اسرائیل کے درمیان حالیہ جنگ نے عالمی سطح پر ایک ایسی لہر دوڑا دی ہے جس کی شدت اور گہرائی کا اندازہ شاید ان ممالک کو بھی نہیں تھا جنہوں نے اس آگ کو بھڑکانے میں کلیدی کردار ادا کیا سمجھنے والے کچھ اور سمجھ رہے تھے لیکن بعد کے حالات نے سارے اندازے الٹ کر رکھ دیے۔ اسرائیل کی جانب سے ایران پر حملے کے پیچھے جو بنیادی سوچ کارفرما تھی وہ یہ تھی کہ ایران ایک اندرونی طور پر کمزور، سیاسی اور معاشی لحاظ سے الجھا ہوا ملک ہے کیونکہ یہ بات ہر طرف سے کہی جا رہی تھی کہ ایران کو اندر سے منافقت کا سامنا ہے اس لیے ایران پر دباؤ ڈال کر اسے عالمی منظرنامے سے پسپا کیا جا سکتا ہے۔ یہی سوچ اسرائیل کے پشت پناہ امریکہ کی بھی تھی جس نے ہمیشہ کی طرح مشرقِ وسطیٰ میں اپنی چودھراہٹ برقرار رکھنے کے لیے اپنی پرانی پالیسی کو دہرایا۔
یہودی لابی امریکہ کے سیاسی اور عسکری نظام پر کس حد تک اثرانداز ہے یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ حکومت کسی کی بھی ہو فیصلہ سازی کی اصل قوت وہی طاقت ور لابی رہی ہے جو امریکی سیاست کو پسِ پردہ کنٹرول کرتی آئی ہے۔ اس لابی کے زیرِ اثر امریکی تھنک ٹینکس نے ایران کے خلاف ایک تیز رفتار اور محدود جنگ کا منصوبہ بنایا، جس میں انہیں یقین تھا کہ ایران نہ صرف عسکری محاذ پر شکست کھائے گا بلکہ عوامی سطح پر بھی اس کی حکومت کو حمایت حاصل نہیں رہے گی، یوں ایک نئی حکومت کا قیام محض کچھ دنوں کا کھیل ہو گا۔
مگر “قدرت کی کرشمہ سازی” دیکھیے کہ یہ سارا منصوبہ اس وقت خاک میں مل گیا جب ابتدائی حملوں کے بعد ایران نے جوابی کارروائیوں میں جس حوصلے، نظم و ضبط اور جنگی مہارت کا مظاہرہ کیا، اس نے اسرائیل کو نہ صرف حیرت میں ڈال دیا بلکہ کسی حد تک حواس باختہ بھی کر دیا۔ ایران کے اندر عوامی سطح پر حکومت کے ساتھ جو غیر متوقع اتحاد اور مذہبی جذبہ دیکھنے میں آیا وہ امریکا اور اسرائیل کے لیے ایک بڑا جھٹکا تھا۔ ایران نے روایتی اور غیر روایتی دونوں محاذوں پر جارحانہ ردعمل دیا اور اسرائیل کو ایک ایسی صورت حال سے دوچار کر دیا جس کا اسے ہرگز اندازہ نہیں تھا۔
دوسری طرف امریکہ جو اس ساری مہم کا بیک اسٹیج ڈائریکٹر تھا، خود اس جنگ کو پھیلتا دیکھ کر گھبرا گیا۔ ایک ایسا ملک جس کے شہری نائن الیون جیسے واقعے کو طویل عرصہ گزرنے کے باوجود بھلا نہیں پائے وہ کبھی بھی اپنی سرزمین پر کسی ممکنہ ردعمل کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ اب امریکہ مسلسل جنگ بندی، مذاکرات اور ثالثی کی بات کر رہا ہے کیونکہ اب اسے یہ ادراک ہو چکا ہے کہ ایران نہ صرف میدانِ جنگ میں ڈٹ گیا ہے بلکہ اس کی پشت پناہی کرنے والی عالمی قوتیں بھی اسے تنہا چھوڑنے والی نہیں ہیں۔
امریکہ نے شاید یہ بھی غلط اندازہ لگایا کہ اس جنگ کے ذریعے وہ پاکستان اور چین پر دباؤ ڈال سکے گا۔ مگر چین نے ہمیشہ کی طرح خاموش لیکن مضبوط سفارتی چالیں چلتے ہوئے نہ صرف ایران کی حمایت جاری رکھی بلکہ خطے میں طاقت کے توازن کو بھی اپنی طرف جھکنے سے روکے رکھا۔ پاکستان جو خود ایک مشکل جغرافیائی و سیاسی ماحول میں گھرا ہوا ہے نے بھی بالغ نظری کا مظاہرہ کیا اور جنگ کو اپنی سرزمین تک پہنچنے سے روکنے کے لیے متوازن حکمت عملی اپنائی۔ ان دونوں ممالک کے طرزِ عمل نے امریکہ کی اس امید کو توڑ دیا کہ وہ ایران کو ہرا کر پورے خطے کو اپنی مرضی سے چلنے پر مجبور کر سکے گا۔
ایران کی طرف سے حملوں میں اپنے کئی اہم کمانڈرز اور دفاعی اہل کاروں کی شہادت کے باوجود جس انداز میں عوام نے حکومت کے بیانیے کا ساتھ دیا اور مذہبی جذبے کے تحت اپنی سرزمین کا دفاع کیا، وہ پوری مسلم امہ کے لیے باعثِ فخر ہے۔ ان حالات میں جہاں کئی مسلمان ممالک نے خاموشی یا مصلحت کو ترجیح دی ایران کا کھلا اور غیر مبہم مؤقف ایک عظیم مثال بن چکا ہے۔
آج امریکہ نہ صرف سیاسی طور پر پچھتا رہا ہے بلکہ اس کی ساکھ بھی بری طرح متاثر ہو چکی ہے۔ اب اگر مذاکرات ہوتے بھی ہیں تو وہ شرائط اب ایران یا اس کے اتحادی طے کریں گے نہ کہ واشنگٹن یا تل ابیب، امریکی طاقت کا غرور اس وقت زمین پر آ چکا ہے اور اگر اس نے مزید محاذ آرائی کی کوشش کی تو شاید اسے ماضی کی ویتنام یا افغانستان جیسی ناکامیوں سے بھی بدتر تجربات سے گزرنا پڑے۔
اس جنگ نے ایک بار پھر یہ ثابت کر دیا ہے کہ کسی بھی قوم کی اصل طاقت اس کا جذبہ، اتحاد اور خودداری ہوتی ہے۔ ایران کی مزاحمت نے نہ صرف اسرائیل کے عسکری غرور کو توڑا بلکہ امریکہ کو بھی یہ سبق سکھایا کہ ہر منصوبہ صرف ہتھیاروں سے کامیاب نہیں ہوتا۔ آج اگر پوری دنیا کی نظریں مشرق وسطیٰ پر جمی ہوئی ہیں تو وہ ایران کی غیر متزلزل مزاحمت کی بدولت ہے، نہ کہ امریکہ یا اسرائیل کی عسکری برتری کی وجہ سے۔
ان شاءاللہ سچ کی یہ فتح اور باطل کی یہ شکست ایک نئی عالمی حقیقت کا پیش خیمہ بنے گی جس میں نہ صرف مسلم دنیا بیدار ہو گی بلکہ مظلوم اقوام کو بھی نیا حوصلہ ملے گا۔ اس جنگ کے بعد کی دنیا شاید وہ نہ ہو جو امریکہ یا اسرائیل چاہتے تھے بلکہ وہ ہو جو انصاف، خودمختاری اور مساوات کی بنیاد پر کھڑی ہو۔