غلام سرور خان نے چپ کا روزہ توڑ دیا

بابر اورنگزیب چوہدری/تحریک انصاف کی حکومت دن بدن عوام پر مہنگائی کا بوجھ ڈال رہی ہے اور اس کی تمام تر پالیسیاں یکے بعد دیگرے ناکام ہوتی جارہی ہیں یہی وجہ ہے کہ حکومت ہر گزرتے دن کے ساتھ بحران در بحران میں گرتی جارہی ہے ایسے مشکل وقت میں حکومتی صفوں میں بھی اتحاد نظر نہیں آرہا بہت سے وزراءایک دوسرے سے کھینچاتانی میں لگے ہوئے ہیں اور ایسی ہی صورتحال اب وزراءاور لیڈروں سے ہوتی ہوئی یونین کونسل کی سطح پر پہنچ چکی ہے ویسے تو پاکستان تحریک انصاف کی تنظیم سازی جب بھی ہوئی خواہ وہ پارٹی کی سطح پر ہو یا پھر یونین کونسل لیول‘ پوٹھوہار سے سٹی لیول پر ہر جگہ دھڑے بندی اور مخالفت نظر آئی ایسی ہی صورتحال اب ایک بار پھر بن چکی ہے اب راولپنڈی کی بیشتر یونین کونسل میں دھڑے بندی بن چکی ہے دو دو گروپ آمنے سامنے آچکے ہیں جسکا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ این اے 59 کی تنظیم سازی یونین کونسل کی سطح پر کی گئی اور تمام یونین کونسل کے عہدیداران کا نوٹیفکیشن جاری کیا گیا لیکن نوٹیفیکشن کے اگلے ہی روز جہاں ایک گروپ نے اس کا خیر مقدم کیا اور خوشی کے شادیانے بجھائے تو دوسری طرف ہی دوسرے گروپ نے احتجاج کیا اور نوٹیفیکشن مسترد کرتے ساتھ ہی اس نوٹیفکیشن کو منسوخ کرنے کا مطالبہ کردیا اور سوشل میڈیا اور اخبارات کا سہارا لیتے ہوئے اس تنظیم سازی اور دوسرے گروپ کو آڑے ہاتھوں لیا انکا کہنا تھا کہ حقیقی معنوں میں پارٹی کے لیے کام کرنے والے اور پارٹی کی بنیاد رکھنے والوں کو اس تنظیم سازی میں نظر انداز کیا گیا ہے انکو کوئی عہدہ نہیں دیا گیا اور کسی نے بھی ان سے اس تنظیم سازی پر مشاورت نہیں کی یہ عہدوں کی بندر بانٹ کی گئی ہے اور اپنے من پسند لوگوں کو نوازا گیا ہے جبکہ اسکے ساتھ ہی دوسرے گروپ کا موقف یہ ہے کہ تنظیم سازی سے قبل سب سے مشاورت کی گئی اور اس کے بعد ہی تمام عہدیداران کو عہدے دیے گئے اور تمام عہدے انکو دیے گئے جو حقیقی معنوں میں پارٹی کے ساتھ مخلص ہے اور پارٹی کےلئے کام کر رہے ہیں اس ساری صورتحال پر احتجاج نے جب طول پکڑی تو وفاقی وزیر غلام سرور خان سمیت ایم پی ایز واثق قیوم عباسی اور حاجی امجد محمود چوہدری نے بھی اپنا موقف سامنے رکھتے ہوئے تنظیم سازی کو مسترد کر دیا اور بتایا کہ اس تنظیم سازی میں ان سے کسی قسم کی کوئی بھی مشاورت یا رائے نہیں لی گئی اس لیے وہ اسکو مسترد کرتے ہیں اور کارکنان بھی اس سے دور رہیں اس تنظیم سازی کا حصہ نہ بنیں ان کے مشترکہ دو ٹوک موقف کے بعد ایک گروپ جو پہلے ہی تنظیم سازی پر احتجاج کر رہا تھا اس نے اپنے عہدوں سے استعفیٰ دینے کا بولا جبکہ کچھ نے دے بھی دیے مگر غلام سرور خان کے باضابطہ اعلان اور تنظیم سازی کو مسترد کرنے کے اعلان کے کئی دن گزر جانے کے باوجود تاحال نوٹیفکیشن مسترد نہیں ہوئے اور نہ ہی مختلف یونین کونسل کے تمام عہدیداروں نے خود کو عہدوں سے الگ کیا اور مستعفی ہوئے اس بات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ غلام سرور خان کی اپنے ووٹرز اور کارکنان میں کتنی اہمیت ہے کہ ایک باضابطہ اعلان اور کارکنان کو اس سے الگ رہنے کے حکم کے باوجود تاحال سب نے خود کو اس سے الگ نہیں کیا اور نہ ہی مستعفی ہوئے اس تنظیم سازی سے قبل بھی ایک گروپ نے پوٹھوہار ٹاو¿ن کی تنظیم سازی پر بھی بھرپور احتجاج کیا تھا جب کرنل (ر) اجمل صابر کی زیرنگرانی پوٹھوہار ٹاو¿ن کی تنظیم سازی ہوئی تو احتجاج کیا گیا کہ غلام سرور خان گروپ کو یکسر نظر انداز کیا گیا ہے اور انکے عمائدین کو تنظیم سازی میں شامل نہیں کیا گیا کافی شور شرابہ کرنے کے باوجود وہ تنظیم سازی اپنی جگہ پر قائم ہے اور احتجاج کرنے والے بھی خاموش ہوکر بیٹھ گئے ہیں کیونکہ اس سارے معاملے میں غلام سرور خان نے خاموشی اختیار کی ہوئی تھی انھوں نے اس وقت نہ ہی کوئی بیان دیا اور نہ ہی تنظیم سازی پر اپنا کوئی موقف دیا جسکی وجہ سے انکے عمائدین جو احتجاج کر رہے تھے خاموش ہوکر بیٹھ گئے اور احتجاج نے طول نہیں پکڑا اب دوبارہ سے یونین کونسل کی سطح پر کی جانے والی تنظیم سازی پر پھر سے دو گروپ آمنے سامنے آچکے ہیں تو دیکھنا ہوگا کہ اب یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا کیونکہ اس بار وفاقی وزیر غلام سرور خان نے چپ کا روزہ توڑ دیا ہے اب کیا انکی مداخلت سے تنظیم سازی دوبارہ ہوگی یا پھر غلام سرور خان کے اس موقف کو مسترد کرتے ہوئے موجودہ تنظیم سازی پر ہی اکتفا کیا جائےگا اسکا فیصلہ اگلے کچھ دنوں تک سامنے آجائے گا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں