عمران خانی دورِ حکومت پر طائرانہ نظر

باشعور افراداور اندھے پیروکاروں میں یہی فرق ہوتا ہے کہ باشعور لوگ کچھ نئے حقائق جاننے کے بعد اپنی رائے تبدیل کر لیتے ہیں مگر اندھے پیروکار،پجاری عقل و شعور سے عاری ہوتے ہیں 2018سے پہلے تک عمران خان کے حامیوں کی اس دلیل میں یقینا وزن تھا کہ باقی پارٹیوں کو آزمایا جا چکا ہے ایک بار عمران خان کو بھی آزمایا جانا چاہیے پھر عمران خان کا پونے چار سال کا دور حکمرا نی بھی قوم نے دیکھ لیا اب اس دور کی شاندار کارکردگی کے بعد وہ دوبارہ وہی بابرکت دور واپس لا کر عوام پر مسلط کرنا چاہتے ہیں آخروہ دودھ اور شہد کی کونسی نہریں تھیں جن سے وہ قوم کو دوبارہ فیضیاب کرنا چاہتے ہیں اس حقیقت کو جھٹلایا نہیں جا سکتا کہ عمران خان پونے چار سالوں میں کوئی میگاپروجیکٹ شروع نہ کر سکے اور انہوں نے پولیس ریونیو اور عدلیہ سمیت کسی ادارے کے بوسیدہ نظام کو بدلنے کے لئے معمولی سی کوشش بھی نہیں کی عمران خان کے حامی اپنے دل و دماغ سے تعصب کا غبار جھاڑ کر بتائیں کہ اس دور میں ڈالر کی اڑان کبھی رک سکی؟کیا کبھی پیٹر ول کی رفتار کم ہوئی؟ ڈالر اور پیٹرول جب آسمان کی بلندیوں کو چھونے لگا تو ہر چیز کی قیمت کو آگ لگ گئی روزمرہ کی اشیاء پر ہاتھ ڈالتے ہوئے غریب ہی نہیں مڈل کلاس کے بھی ہاتھ جلنے لگے پچپن روپے کلو والی چینی سوروپے سے اوپر چلی گئی گھی اور آٹا بھی عام آدمی کی پہنچ سے دُور ہو نے لگے کسانوں کی زبوں حالی یہاں تک پہنچ گئی کہ نواز دور میں دو ہزار پانچ سو روپے والی ڈی اے پی کھاد دس ہزار روپے سے اوپر چلی گئی اور یوریا مارکیٹ سے ہی غائب ہو گئی عمران خانی دور کی ناقابل برداشت مہنگائی کا نتیجہ یہ نکلا کہ بوڑھو ں اور خواتین کے ہاتھ ارو جھولیاں اُٹھا لیں اور حکومت اور وزیراعظم کو بد دعائیں دینے لگے ملک کی معیشت اس طرح برباد کی گئی کہ ان کے اقتدار کے آخری دن تک اس میں معمولی سی بھی بہتری نہ آسکی اس کے جو اب میں ان کی پارٹی کے لیڈر اعشارئیے اور اعداد وشمار دکھاتے ہیں مگر ان کے اعدادوشمار عوام کی مشکلات میں کوئی کمی نہ لا سکے موجودہ مہنگائی عمران خانی مہنگائی کا تسلسل ہے عوام کی وہ بلبلاہٹ اور بددعا ئیں ابھی بھی کانوں میں گونجتی ہیں عمران خان نے جتنی بری کارگردگی کا مظاہرہ گو رننس کی فیلڈمیں کیا ستر سال میں کسی اور سیاستدان نے نہیں کیا ہوگا سب سے پہلے کسی اچھی شہرت رکھنے والے سیاستدان کے بجائے ایک نا اہل شخص کو سب سے بڑے صوبے پنجاب کا وزیراعلیٰ مقرر کردیا پھر اُسے اور اپنے عزیز واقرباء کو لوٹ مارکی کھلی چھٹی دے دی عمران خان نے پولیس اور انتظامیہ کے کاموں میں بدترین مداخلت کو پروان چڑھایا جس افسرنے پی ٹی آئی کے کسی ہارے ہوئے امیدوار کا کام نہ کیا اُسے اُسی وقت تبدیل کردیا گیا دیانتدار افسروں کو ہٹا کر اہم عہدوں پر کرپٹ اور بدنام افسران تعینات کردئے گئے عمران خان نے خودسب سے بڑے صوبے پنجاب میں اینٹی کرپشن کے محکمے سے ایک گریڈ بائیس کے نیک نام آفسر کو ہٹا کر بیس گریڈ کے ایسے بدنام آ فسر کو سربراہ مقرر کر دیا جس کے اپنے خلاف انکوائریاں چل رہی تھیں عمران خان نے تعیناتی کا معیا ر دیانتداری کے بجائے پارٹی سے وفاداری قرار دیا اسی بناء پر چھ سات آئی جی بدل دئے کہ وہ ان کے سیاسی مخالفین کا خاتمہ نہ کر سکے اداروں کی اصلاح یا بہتر ی عمران خان کی ترجیحات میں ہی نہیں تھی ان کا ایک ہی ہدف تھا اپنے سیاسی مخالفین کو کچلنا اور اس کے لئے سرکاری مشینری کا بے دریغ استعمال کیا گیا جس بدنام افسر نے جاکر کہ دیا کہ میں ن لیگ کو ختم کردوں گا اسے فوری طور پر لاہور یا پنجاب پولیس کا
سربراہ مقرر کر دیا ڈی سی، کمشنر اور اعلیٰ پولیس افسران کروڑوں روپے دے کرفیلڈپو سٹنگ خریدنے لگے میڈیا نے ان کے نام بھی لکھ دئے مگر عمران نے کوئی کارروائی نہ کی نیتجتاََ تھانے کچہریاں اور سرکاری دفاتر کرپشن کے گڑھ بن گئے جرائم میں بے تحاشااضافہ ہو گیا اور امن و امان کی صورتحال انتہائی ابتر ہو گئی جب انٹیلی جنس ایجنسیوں کے ذمہ دار افسروں نے انہیں کرپشن کے ثبوت دکھائے تو اُن پر کارروائی کرنے کے بجائے نشاندہی کرنے والے اعلیٰ افسر کو تبدیل کر دیا گیا عمران خان نے اپنے عمل سے ثابت کیا کہ وہ قانون کی حکمرانی پر بالکل یقین نہیں رکھتے یعنی ہر شخص پر قانون کے یکساں اطلاق کے بھی خلاف ہیں عمران خان نے ثابت کیا کہ احتساب سے اس کی مراد صرف یہ ہے کہ اس کے سارے ناقدین کو جیلوں میں بند کر دیا جائے سوال اُٹھانے والے چینلز اور صحافیوں پر پابندی عائد کر دی جائے اور ملک میں ہٹلر کی طرح ایک ہی پارٹی کی حکمرانی اورفاشزم کا راج ہو صوبہ پنجاب میں عمران خان کی حکومت بد ترین گورننس کا شاہک
ررہی ہے انصاف اور میرٹ کو پامال کیا جاتا رہا ہے مگر عمران خان کو ان کی گورننس پر کو ئی اعتراض نہیں وہ صرف اس بات پر سابق وزیراعلیٰ کی تعریفیں کر رہے ہیں کہ اس نے پنجاب اسمبلی تحلیل کردی ہے عمران خان پچھلے پونے چار سالوں میں کسی دیانتداراور باضمیر سول سرونٹ کے ساتھ کھڑا نہیں ہوا اور اس نے کبھی کسی باکردار افسرکو غیر جانبداررہ کر قانون کی حکمرانی قائم کرنے پر سپورٹ نہیں کیااس لئے ایماندار اور باضمیر افسروں کے لئے عمرانی دور ایک ڈراؤنے خواب کی طرح ہے جس کا ذکر سن کر وہ کانوں کو ہاتھ لگاتے ہیں پاکستان کے خارجہ تعلقات کے محاذ پر بھی عمران خان نے اقتدار میں آتے ہی سی پیک منصوبے کے خلاف بیان دئے جس سے اربوں ڈالر کی بیرونی سرمایا کاری رک گئی اور چین جیسا دوست بھی پاکستان حکومت سے ناراض ہو گیا سعودی عرب یمن کے معاملے میں فریق بننے سے انکار کرنے پر نواز شریف سے ناراض تھا اس لئے اس نے عمران خان کا پر جوش خیرمقدم کیا گیا مگر ہمار ے وزیر اعظم نے اپنی غلط پالیسی کی وجہ سے سعودی عرب کو بھی ناراض کردیا امریکہ مشکل وقت میں ہمیں اقتصادی اور فوجی امداد دیتا رہاہے عمران خان نے اپنے غیر زمہ دارانہ رویے سے اُسے ناراض کر دیا ترکی ہمارے سگے بھائیوں کی طرح قابل اعتماد دوست تھا عمران خان طیب اردوان اور ڈاکٹر مہاتیر کو اپنا آئیڈیل قرار دیتا تھا دونوں رہنماؤں کے ساتھ مل کر پریس کانفرنس کی اور بڑے بلند پانگ عزائم کا اظہار کیا مگر پھر دباؤ برداشت نہ کر سکا اور ہمیشہ کی طرح اپنے عہدسے مکر گیا اور اس طرح اس نے ترکی اور ملائیشیا کا اعتماد بھی کھو دیا عمران خان کے اقتدار کے آخری مہینوں میں صورتحال یہ تھی کہ پوری دنیا کا کوئی ایک ملک بھی ایسا نہیں تھا جو پاکستان کے ساتھ کھڑا نہ ہوتا عمران خان نے اپنے غیر ذمہ دارانہ بیانات اور حرکتوں سے تمام دوستوں کو ناراض کر کے پاکستان کو تنہا کر دیا تھا عمران خان نے اس ملک اور قوم کے ساتھ سب سے بڑا ظلم یہ کیا کہ قوم کو تقسیم کر کے سیاست میں نفرت اور تشدد کا زہر گھول دیااور نئی نسل سے اعلیٰ اقتدار اور اچھے اخلاق کا جوہر چھین کر اسے بد اخلاق بنا دیا اب پھر عمران خان چاہتے ہیں کہ عوام ایک دفعہ ڈسے جانے کے بعد پھر اپنا ہاتھ اُسی سوراخ میں ڈال دیں مگر اہل دانش کا کہنا ہے کہ دوسری بار کاڈنگ مہلک ثابت ہوتا ہے کیا پاکستانی قوم دوبارہ ڈسے جانے اور ایک زہر آلود کلہاڑی سے خود اپنے ہاتھ اور پاؤں کاٹنے کے لئے تیار ہو جائے گی؟

اپنا تبصرہ بھیجیں