ضلع جہلم تحصیل دینہ سے 7کلو میٹر کے فاصلے پر واقع قلعہ روہتاس اپنی آب و تاب کے ساتھ دنیا والوں کو جنگ و جدل کا سماع پیش کرتا ہے۔ مغلیاء دور کے مشہور بادشاہ شیر شاہ سوری نے اپنے پندرویں صدی عیسوی میں اپنی سلطنت کے دفاع کے لیے ایک عظیم قلعہ تعمیر کروایا۔روہتاس لفظ روتس سے نکلا ہے
جس کا مطلب بیضوی شکل کا۔چونکہ اس قلعے کا نقشہ بیضوی۔ یعنی انڈے کی شکل کا ہے اس لیے اس کو روہتاس کہا گیاہے۔ پندرویں صدی عیسوی میں تعمیر ہونے والا یہ عظیم الشان قلعہ اپنا ثانی نہیں رکھتا۔ کہا جاتا ہے کہ جب قلعہ روہتاس کی تعمیر شروع ہوئی تو تقریباً ڈیڑ ھ لاکھ مزدوروں یعنی سپاہیوں نے مسلسل تین سال کام کیا اور با لآخر تین سال کے عرصہ میں یہ قلعہ تعمیرہوا۔
کمال کی بات یہ ہے کہ بغیر کسی مشینری کے بھاری پتھر نوے نوے فٹ کی بلندی پر نصب کیے گئے۔ اس قلعے کے چار مین دروازے ہیں۔ اور ہر دروازے کی نوے نوے فٹ بلندی ہے۔ بعض روایات میں یہ بھی آیا ہے کہ شیر شاہ سوری کے پاس کچھ غائبانہ طا قتیں تھی۔ جب مزدور کام ختم کر نے کے بعد واپس چلے جاتے تو رات کو کچھ طاقتیں بڑے بڑے پتھر جو انسانی مزدوروں کے بس میں نہ تھے
وہ دیوار پر صبح تک خود بخود نصب ہو جاتے تھے۔ اور وہ ادھورا کام مکمل ہو جاتا تھا۔ ایک روایت کے مطابق شیر شاہ سوری چونکہ ولیوں کا بڑا احترام کرتا تھا۔ایک دفعہ جب شیر شاہ سوری نے قلعے کی تعمیر شروع کی تو کسی اللہ والے سے ملاقات ہوگئ
ی۔اللہ کے ولی نے اشارہ دیا کہ تم قلعہ تعمیر کرو کچھ غائبانہ طاقتیں تمہاری مدد کریں گی۔ مگر شرط یہ ہے کہ کبھی کسی سے ان کا ذکر نہ کرنا ورنہ جل کر راکھ ہو جاؤ گے۔ کہا جاتا کہ پھر ایسا ہی ہوا غائبانہ طاقتوں نے قلعے کی تعمیر میں بڑھ چڑھ کر حصہ ڈالا۔کافی عر صہ تک شیر شاہ سوری اس عہد کو وفا کرتا رہااور کسی سے بھی ان کا ذکر نہ کیا۔ مگر ایک دن اس سے رہانہ گیا اور شیر شاہ سوری نے اپنے ایک ہم راز وزیر کو سارا ماجرا سنادیا۔
چونکہ اللہ کے ولی نے کہا تھا کہ اگر کبھی ذکر کیا تو جان لینا جل کر مر جاؤ گے۔ پھر ایساہی ہواکہ شیرشاہ سوری بھارت میں امرتسر کے مقام پر اپنے ایک اسلحہ کے ڈپو کا معائنہ کرنے گیا وہاں کسی وجہ سے اچانک آگ بھڑک اٹھی اور شیر شاہ سوری اس آگ میں جل گیا۔
اس قلعے کے چارمین دروازے ہیں۔ جن کی اونچائی نوے فٹ تک ہے۔ قلعہ روہتاس کے مین گیٹ سے اندر جاتے ہی انسانوں کی ایک بستی نظر آتی ہے۔ جو وہاں کی رونق اور اس قلعے کی تاریخ کی محافظ بھی ہے۔ مین دروازے جسے شہری دروازہ بھی کہتے ہیں
۔ اند ر کافی فاصلہ طے کرنے کے بعد قلعہ کا دروازہ آتاہے۔ جسے دیکھ کر آنکھیں حیران رہ جاتی ہیں۔یہ دروازہ آج بھی اپنی اصلی حالت میں موجود ہے۔ دروازے کے پتھروں کا وزن دیکھ کر اس وقت کے مزدوروں کی ہمت کو داد دینے کا جی چاہتا ہے۔قلعہ روہتاس کا شمار ان چند قلعوں میں سے ہے جو ہاتھوں سے اگٹھا کیا ہو پتھر ہے۔ اور آج بھی یہ پتھر اپنی نوید سناتے ہیں
۔ قلعے کے اوپر جائیں تو قلعے کی دیواریں سادہ ڈیزائن مگر انتہائی مضبوط نظر آتی ہیں۔ ان دیواروں میں بندوق رکھنے یا سپائیوں کو کھڑا کرنے کے لیے استعمال کیا جا تا تھا۔ جہاں چاروں طرف علاقہ صاف صاف نظر آتا ہے۔ آنکھوں کی وسعت کا اندازہ بھی وہاں جا کر ہی ہوتا ہے
۔ان مورچوں کے ساتھ نیچے کی طرف گرم پانی اور گرم تیل ڈالنے کے لیے بھی سوراخ ہیں جو دشمنوں کو بھگانے کے کام آتے تھے۔ قلعے کے اندر شیر شاہ سوری میوزیم بھی ہے جہاں شاہی خاندان کی چیزیں رکھی ہوتی ہیں۔رانی محل، طلاقی گیٹ، پھانسی گیٹ، لنگر خانہ گیٹ، حویلی مانگ سنگھ، شاہی مسجدوہ بڑی جگہیں ہیں جہاں گھوم کر سیاح اپنا دن پورا کرتے ہیں۔ قلعے کے اند ر ایک کنویں میں سیڑھیاں بھی اترتی ہیں کہا جاتا ہے کہ شیر شاہ سوری کے گھوڑے وہاں سے اتر کر پانی پیتے تھے۔
قلعے کے اند ر ایک پارک بھی بنایا گیا ہے۔جو وہاں کی فیملیز اور سکول Tripکے لیے بہترین جگہ ہے۔قلعے کے اند ر ایک غار ہے جس کے اندر ایک مزار بھی ہے۔ جہاں عقیدت مند اپنی منتیں پوری کرتے ہیں۔شام کا منظر اس قلعے کی رونق کو بڑھا دیتا ہے۔لیکن ساتھ ہی قلعے کی دیواریں پر اداسی کی فضا بھی چھا جاتی ہے۔
شام کے وقت سارے سیاح یہاں سے جانے کی تیاری کرتے ہیں۔ اس طرح قلعے کے آخری پہر خاموشی چھا جاتی ہے۔تاریخی اصلاحات میں ڈاک کا نظا م بر صغیر میں سب سے پہلے شیر شاہ سوری نے متعارف کروایا۔بھارت نے اس کے اس کارنامے کو سہراتے ہوئے اس نام سے یاد گار ٹکٹ جاری کیا
۔کرنسی کا نظام متعارف کروایا اور اس کرنسی کو روپیہ کا نام دیا گیا۔ایک روپیہ ایک تولہ چاندی کا بنا یا ہوا سکا تھا۔ جبکہ پیسہ تانبے کا سکہ تھا۔ایک روپیہ تانبے کے بنے 40پیسوں کے برا بر ہو ا کرتا تھا۔آج بھی روپیہ پاکستان، بھارت، انڈونیشیا اور نیپال میں رائج ہے۔