360

عبدالرحمن واصف‘ سنجیدہ شاعر

عبدالرحمن واصف کا شمار پوٹھوہار کے اہم اور سنجیدہ شعرا میں ہوتا ہے یہ شاعری کے ساتھ ساتھ ماہر لسانیات کی حیثیت سے بھی خاص شہرت رکھتے ہیں اس کے علاوہ سوشل میڈیا پر مختلف زبان و ادب پر ہونے والے مباعث میں بھر پور حصہ لیتے ہیں اپنے خطہ اور اس کی زبان کو ہر فورم پر دلائل کے ساتھ بھر پور دفاع کرتے ہیں.

آپ27 فروری 1980ء کو پوٹھوہار کے خوبصورت شہر کہوٹہ میں پیدا ہوئے دنیاوی تعلیم بی اے حاصل تک حاصل کی اور مذہبی تعلیم بھی مدرسہ سے حاصل کرتے رہے ہیں ان کو شعرو شاعری سے شروع سے شغف تھا

اور 21 سال کی عمر سے شعر کہنا شروع کر دیا تھا لیکن شاعری کا باقاعدہ آغاز 2007 / 2008 کو کیا اپنی شاعری پر اصلاح سخن پوٹھوہار کے معروف استاد اختر امام رضوی مرحوم اور کشمیر کے مشہور گیت اے دنیا کے منصفو،سے شہرت حاصل کرنے والی شخصیت جاوید احمد مرحوم سے لیتے رہے ہیں .

اب تو ان کے سینکڑوں شاگرد ہیں جو ان سے اصلاح سخن لیتے ہیں جو بڑے اعزاز کی بات ہے ان کا اصل نام تو عبدالرحمن ہے جب کہ واصف بطور تخلص استعمال کرتے ہیں ان کی پہلی کتاب بجھی ہوئی شام نظموں اور غزلیات پر مشتمل ہے

جو 2012 میں شائع ہو کر اہل نقد و نظر سے خراج پا چکی ہے۔ 2018 میں غزلوں کا مجموعہ تحیر شائع کیا۔ ان کی پہلی ترجیح اردو غزل ہی تھی لیکن جب پوٹھوہاری زبان و ادب کی بقا اور فروغ کے لیے تحریک میں نئے نوجوان شامل ہوئے تو آپ کہوٹہ سے نمائندگی کے لیے پہلی صف میں کھڑے ہوئے.

آپ کی شمولیت سے پوٹھوہاری زبان کو بہت فائدہ ہوا آپ نے پوٹھوہاری کا مقدمہ دلائل سے لڑا آپ سپہ سالار بن کر پوٹھوہاری زبان کا دفاع کرنے کے ساتھ اس میں غزلیں اور نظمیں لکھنا شروع کر دیں

یہ خوش نصیبی اور اعزاز کی بات ہوتی ہے کہ کسی چیز کسی منصوبے کی بنیاد کا بانی کہلائے اگر ادبی حوالے سے بات کی جائے تو ادبی صنف میں نیا کام کرنا اور پھر ادبی حلقوں میں اس کو سراہا بھی جائے تو اس سے بڑی کامیابی کوئی اور نہیں ہو سکتی۔

واصف ادبی دنیا کے خوش نصیب شاعر ادیب ہیں انھوں نے اردو اور پوٹھوہاری شاعری میں لوہکی یا اڑھائی مصرعی نظم کا آغاز کیا اور اس اس نئی صنف کی پہلی پوٹھوہاری نظموں کی کتاب چریٹھ بھی پیش کی اس کے ساتھ جیسے ہی انھوں نے اس نئی صنف میں کئی نظمیں فیس بک اور وٹس ایپ گروپس میں پر شئیر کیں تو ان کی دھوم مچ گئی

سینئرشعراء کے ساتھ نئے لکھنے والے بھی ان کی پیروی کرنے لگے پھر جس اسلوب جس زبان اور کلچر کے رنگ میں ان کو پیش کیا وہ بھی کمال کا ہے ان نظموں کو پڑھنے کے ساتھ سننے میں بھر پور لطف دیتی ہے ان کا مرکز پوٹھوہار ہی ہے اس کے بعد اس میں استعمال ہونے والے محاورے کھانڑ اور لفظیات اسی رہتل میں رنگی ہوئی ہیں.

ان کی خاص بات ان کے مضامین آفاقی ہیں جو پوری دنیا کو محبت اخوت بھائی چارے انسانیت کا درس دیتی ہیں اور عظمت انسان سے آگاہی فراہم کرتی ہیں ایسا ادب آفائی ادب کہلاتا ہے جو پوری انسانیت کے مسائل کو محو گفتگو بناتا ہے

یہی فکر شاعر ادیب کی سطح کو متعین کرتی ہے کہ اس کا معیار سخن اور دائرہ سخن کتنا پھیلا ہوا ہے چھوٹی بحر میں لکھنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے یہ کام صاحب مطالعہ اور کافی مشق سخن کرنے والا ہی کر سکتا ہے نئے لکھنے والے کے بس کی بات نہیں۔

واصف نے ایک مکمل غزلیہ مجموعہ ”مختصر” کے نام سے 2020 میں ایسٹرن پبلیکیشننز کے زیر اہتمام شائع کرایا جو اردو دنیا کی تاریخ میں مختصر غزلیات پر پہلی مبسوط کتاب ہے۔ ان کے اس اختصاریہ اسلوب کا تتبع بھی بہت سے شعراء و شاعرات کر رہے ہیں۔

ان کی چریٹھ کتاب پوٹھوہاری کتابوں میں اپنی الگ شناخت رکھتی ہے اس کی چھوٹی چھوٹی اڑھائی مصرعی نظموں میں مضامین بڑے ہیں پھر اس کی خاص وجہ اس کا طرز تحریر اوزان اور جدا اسلوب ہے یہ ایسے ایسے مضمون کو باندھتے ہیں

حیرانی پاؤں میں گھنگرو باندھے ارد گرد رقص کرتے محسوس ہوتی ہے یہ قابل داد بات ہے کہ اتنے بڑے مضمون کو اڑھائی مصرعوں میں لکھنا دریا کو کوزے میں بند کرنے کے مترادف ہے
ان کے دو نعتیہ نظمیں دیکھیں
(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)
کالیاں راتاں پر لوئی نے در کھلے
اللہ مکے وچ جسلے اوہ نور لاہیا
رج شعور لاہیا!
(ترمکا)
تساں آئے او،چہھلی ہوا ٹھڈی
بے یقینی وی بنھی کیہ چور بیٹھی تھوڑی تہھوڑ بیٹھی زندگی بہت مشکل ہے اگر صاحب شعور بھی ہو تو اک اک اذیت کے دائرے میں گزرتا ہے جب دور بھی افراتفری کا ہو خونی رشتے دشمن بن جائیں اس صورت میں سانسیں ماتم کرتی ہیں
(حیاتی)
کتھے سوخا حیاتی نا پہھار چہھلیا
منگع پھنگ تے پھنگاں نیں ڈار دینڑی
گجھی مار دینڑی
یہ نظم بھی ہمارے معاشرے کے رویوں کی ترجمانی کر رہی ہے جب مصیبت آئے تو اپنے بھی ساتھ چھوڑ دیتے ہیں اور شوہدے لفظ کا معنی پوٹھوہار کا ہی سمجھ سکتا ہے اس لفظ میں نفرت کے باوجود اپنائیت کا پہلو بھی ہے
(شوہدے)
آئی جسلے وی گل قربانیاں نی
بڑھکاں مارنے فٹ بیمار ہوئی گئے
ٹھڈے ٹھار ہوئی گے عشق اپنی ذات کے ساتھ دنیا کا شعور دیتا ہے لیکن ہر بندے کا اپنا اپنا تجربہ ہوتا ہے عشق کے بغیر زندگی میں کوئی منظر نیا نظر نہیں آتا نیا تجربہ نہیں حاصل نہیں ہوتا نیا رستہ دکھائی نہیں دیتا عشق اذیت کے ساتھ قلبی روحانی تسکین دیتا ہے.

کبھی کبھار عشق مجازی اور حقیقی سولی پر چڑھابھی دیتا ہے انسان اس کے بغیر ادھورا پن محسوس کرتا ہے یہ الگ بات اس سے نجات بھی چاہتا ہے اور نہیں بھی ان کی یہ نظمیں دیکھیں جو شعر اپنے تجربات اور مشاہدے سے آشنا کروا رہے ہیں
(عشق)
کیتی پٹ چپٹ کھلیار کھولے
بخری ہوئی نہ دلے سوں یاد شوہدی
عشق ایجاد شوہدی!
(پاہت)
سولی اپر او ظالم جلاد ٹنگو
جس اس عشقے نی شوہدی پر جہھات کڈھی
نوی پاہت کڈھی
(بدعا)
بیں چکے ہس عشق نے چانڑیں نا
چنگے پہھلے جس دین ایمان کھاہدے
بہوں جون کھاہدے
(ڈاہڈا)
تساں کہھلیوں تے اس نی مار کھاہدی
چنگے چوخے اس عشقے مسمار کیتے
پباں پہھار کیتے!
یہ کیفیت اہل دل ہی جانتے ہیں کہ ہجر اور وصال میں کیا فرق ہوتا ہے اور دل کی کیا کیفیت ہوتی ہے محبوب کا دیدار ہی عید ہوتی ہے کچھ تو محبوب کا دیدار ہی عبادت کہتے ہیں کچھ تو محبوب کے دیدار کے بغیر اپنا جینا عذاب سمجھتے ہیں یہ التجا کی کیفیت دیکھیں
(چھک)
اساں مغروں لہساں اس ویلے
جس ویلے چیرمی اکھ چاسو
کج گل باسو!
یہ نظم بھی محبوب کی بے وفائی اور لاپروائی کو بیان کر رہی ہے
(سنیاہ)
نہ تو پچھیا نہ کہھدی اے کیڑ کوئی
بخرے ہوئی کیہ گلیاں نے ککھ ہوئے آں
اچھی تکھ!ہوئے آں!_
دنیا کے بڑے بڑے دانشور یہی کہتے ہیں کہ انسان کی بقا اور تحفظ کے لیے ہر مسئلے کا حل باہمی گفتگو میں ہی ہے جنگ کئی مسائل کو جنم دیتی ہے اور یہ جنگ تباہی اور بربادی کا باعث بنتی ہے یہ دو نظمیں اک مثبت پہلو کو پیش کر رہی ہیں جو معاشرے اور انسان میں محبت اور بھائی چارے کے فروغ کے لیے اہم ہیں
(حل)
ہک دوئے نال پھسائی سنگ تے کیہ لبھسی
آ،رلی ملی کیہ سارے مسلے حل کریے
ہنڑ گل کریے
(چرینٹھاں)
جیہڑے باہنڑ چرینٹھاں روحاں پر
اوہ مسلے بہی کیہ حل کریے
چل گل کریے!
ہم دیکھتے ہیں کہ انسان کی فطرت میں شامل رہا کہ وہ دوسروں سے زیادہ اپنی ذات کو ترجیح دیتا ہے اپنی فکر زیادہ کرتا ہے اپنے تحفظ اور بقا کو ترجیح دیتا ہے اار ہر لمحہ اوپر خود غرضی کا لبادہ اوڑھے ہوئے ہوتا ہے شاعر اس موضوع پر اظہار خیال کر رہا ہے کہ خود کو بدلیں اور خاص کام کریں جس سے دوسروں کی ذات کو فائدہ ہو یہی زندگی ہے یہ نظم دیکھیں
(احساس)
ہر بندہ اپنڑیں واسطیں سوچی خش ہونڑاں
اس بخرے لوک تے لوکاں نا احساس کراں
کج خاص کراں!
مولا علی کا فرمان ہے بات کریں تاکہ آپ پہچانے جائیں
پھر بات کرنے سے سو مسائل حل ہو جاتے ہیں خاموشی انسان کو اندر سے مار دیتی ہے کچھ لوگ خاموش لوگوں کا مزاق اڑانے پڑتے ہیں سو خاموشی ہر جگہ لازمی نہیں
چپ رہسیں آخر کد تک توں
بنڑواسیں روز مخول یرا
کج بول یرا!
ان کی پوری کتاب کا مطالعہ کریں تو اس بات کا فیصلہ کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ یہ نظم اچھی ہے یہ اچھی نہیں تمام نظمیں بار بار پڑھنے انھیں یاد کر کے دوستوں کو سنانے کا دل کرتا ہے اک صنف نئی ہے پھر یہ نظمیں ہماری رہتل ہمارے خطہ اور ہماری پوٹھوہاری زبان کی مکمل نمائندگی کررہی ہیں.

اس سے بڑھ کر اصلاحی پہلو کے ساتھ اپنے مضامین کی وسعت سے ادب عالیہ میں شمار ہوتی ہیں چرہٹھ ادبی دنیا میں اپ اپنا انفرادی اور اہم مقام رکھتی ہے جس طرح ہم میاں محمد بخش کی کتاب سیف الملوک کا قلبی اور روحانی سکون حاصک کرنے کے لیے پڑھتے ہیں اس کے اشعار یاد کر کے ہر محفل میں تحت اللفظ یا سر میں پیش کرتے ہیں

اسی طرح عبدالرحمن واصف کی چریٹھ کتاب بھی ہے جو قلبی اور روحانی سکون حاصل کرنے کے لیے پڑھنے کا دل کرتا ہے بلکہ ان کی نظمیں یاد کر کے ہر محفل میں پڑھنے کا دل کرتا ہے یہ کتاب جب دوسری،بانوں میں ترجمہ ہو گی تو پوٹھوہار اور پوٹھوہاری زبان و ادب کو نئے انداز سے متعارف کروائے گی یہ عبدالرحمن کی کتاب کی خوبی اور کامیابی ہے اور یہ کامیابی ہر کسی کو نصیب نہیں ہوتی ان کو اس خوش نصیبی اور عظیم کامیابی پر بہت بہت مبارک باد۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں