عالمی برادری مسئلہ کشمیر پر بھارت کو مذاکرات کیلئے مجبور کرے

ضیاء الرحمن ضیاء /مسئلہ کشمیر تہتر سال سے ایسا حل طلب مسئلہ ہے جو کبھی دوطرفہ مسئلہ تھا مگر اب یہ یکطرفہ مسئلہ بن چکا ہے، کیونکہ بھارت نے تو کشمیر پر اپنا مکمل قبضہ جما لیا ہے اس لیے اس کے لیے تو یہ مسئلہ نہیں ہے یہ تو پاکستان کے لیے مسئلہ ہے کہ اس کے ہاتھوں سے کشمیر نکلتا ہی جا رہا ہے۔ ہاں بھارت کے لیے اس لحاظ سے یہ مسئلہ ہے کہ اسے کشمیر میں اپنی فوج بہت بڑی تعداد میں تعینات کرنی پڑ رہی ہے اور وہ کشمیریوں کے ممکنہ رد عمل سے خوفزدہ ہو کر وہاں سے کرفیو اٹھانے سے گریز کر رہا ہے البتہ اسے وہ اندرونی مسئلہ سمجھتا ہے اس لیے بین الاقوامی سطح پر دیکھا جائے تو یہ مسئلہ پاکستان کے لیے ہی زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ کشمیر میں کرفیو کو ایک سال پورا ہو گیا ہے لیکن پاکستان کے علاوہ کوئی دوسرا ملک اس میں دلچسپی نہیں لے رہا۔ کسی نے اگر بھارت کی حمایت نہیں کی تو کسی ملک کی طرف سے مذمت بھی نہیں کی گئی۔ اسے ہی سفارتی ناکامی کہتے ہیں کہ ہم اپنے حق میں عالمی برادری کی رائے ہموار کرنے میں ناکام ہوچکے ہیں۔ دنیا کے اہم ممالک کی حمایت حاصل کرنے کے لیے سفارتکاری کو مضبوط بنانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کے لیے حکومت بالخصوص وزارت خارجہ کو متحرک ہونا پڑتاہے اور جو مسئلہ زیادہ اہم ہو اسے لے کر پوری دنیا کے تمام اہم ممالک بالخصوص دوست ممالک کے دورے کرنے ہوتے ہیں اور ان کے سربراہان کو اپنے مؤ قف پر قائل کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ پوری دنیا میں موجود اپنے سفارتخانوں کو خصوصی اہداف دیے جاتے ہیں، جن کو حاصل کرنے کے لیے وہ اپنی تعیناتی کے ممالک میں اہم شخصیات سے ملاقاتیں کر کے انہیں مسئلہ کی اہمیت کے بارے میں آگاہ کرتے ہیں، اس کا پس منظر بیان کرنے کے بعد اس کے جلد حل نہ ہونے کی صورت میں پیش آنے والے خطرات سے بھی خبردار کرتے ہیں۔ یوں ان ممالک کی رائے اپنے حق میں ہموار کرتے ہیں تاکہ بوقت ضرورت ان کی حمایت حاصل کی جا سکے اور تمام عالمی فورمز پر وہ ہمیں ہی ووٹ دیں، اس سے مخالف ملک پر دباؤ بڑھتا ہے اور وہ حل طلب مسئلہ پر سنجیدگی سے غور کرتا ہے اور مذاکرات وغیرہ کے لیے آمادگی ظاہر کر دیتا ہے۔ اس کے برعکس اگر سفارتکاری کمزور ہو اور اس شعبے کو سنجیدگی سے نہ دیکھا جائے تو یہ غیر سنجیدگی اور سستی مخالفین میں اضافے اور عالمی سطح پر ووٹ بینک گھٹانے کا باعث بنتی ہے۔ جس کی وجہ سے بوقت ضرورت مخالفین کو فائدہ ہوتا ہے اور یہ غیر سنجیدگی دکھانے والا ملک سراسر خسارے میں رہتا ہے۔ کشمیری نوجوانوں کو آئے روز نوجوانوں کو شہید کیا جا رہا ہے، گھروں کو مسمار کیا جا رہا ہے، چادر اور چار دیواری کا تقدس بری طرح پامال کیا جا رہا ہے، انہیں بنیادی سہولیات سے محروم کر دیا گیا ہے۔ کشمیری دنیا کی سب سے بڑی جیل میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ ویسے تو کشمیری گزشتہ کئی دہائیوں سے ظلم و ستم کی چکی میں پس رہے ہیں لیکن گزشتہ سال 5اگست سے کشمیریوں کے ساتھ جو سلوک را رکھا جا رہا ہے اس کی مثال نہیں ملتی۔ بھارتی فوجی انتہائی بے دردی سے کشمیریوں پر ستم ڈھا رہے ہیں جس میں ان کی حکومت کی مرضی شامل ہے۔ بھارت نے کشمیر کو اپنے نئے ہتھیاروں کی تجربہ گاہ بنا رکھا ہے اور وہاں کئی طرح کے خطرناک ہتھیار استعمال کر چکا ہے جس سے اس کا مقصد کشمیریوں کی نسل کشی ہے اور وہ وہاں مسلمانوں کی تعداد کم کر کے ہندوؤں کی تعداد میں اضافہ کرنا چاہتا ہے۔ بھارت کو کشمیریوں پر ہر طرح کا ستم ڈھانے کی مکمل چھٹی ملی ہوئی ہے اسے دنیا کا کوئی ملک یا کوئی ادارہ پوچھنے والا نہیں ہے، الٹا اسے امن ایوارڈ اور سلامتی کونسل کی رکنیت مل رہی ہے حالانکہ نہ تو وہ پر امن ملک ہے اور نہ ہی سلامتی چاہتا ہے بلکہ دہشت و انتشار پھیلانے میں کوئی ثانی نہیں رکھتا۔ ان تمام مسائل کی وجہ ہماری کمزور سفارتکاری یا خارجہ پالیسی ہے۔ جب بھارتی وزیر خارجہ بہت سے ممالک کے دورے کر کے ان کی حمایت حاصل کر رہے تھے تو ہمارے وزیر خارجہ یہیں بیٹھ کر بیانات داغ رہے تھے۔بھارت میں ہمارے سابق سفیر عبدالباسط نے بیان دیتے ہوئے کہا تھا کہ بھارتی وزیر خارجہ نے 36جبکہ وزیر اعظم نے 6ممالک کے دورے کیے جبکہ ہماری طرف سے انتہائی سستی پائی گئی اور اپنے گھروں سے بیانات دینے پر اکتفاء کرتے رہے۔ اس کا نتیجہ یہی نکلنا تھا کہ بہت سے ممالک بھارت کے حمایتی ہو گئے اور بھارتی وزیر اعظم کو ایوارڈ ز سے نوازتے رہے جبکہ ہم عالمی برادری کو پکارتے رہے لیکن ہماری پکار کا کسی نے جواب نہیں دیا یہ ہماری سفارتکاری کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ ہم نے اس مسئلہ کے حل کے لیے فقط بیانات دیے یا ایام منائے، ہاتھوں کی زنجیریں بنائی، ریلیاں نکالیں اور اسلام آباد کی کشمیر ہائی وے کا نام تبدیل کر کے سری نگر ہائی وے رکھ دیا جو کوئی بڑی تبدیلی نہیں ہے۔ ان اقدامات سے بھارت کوکوئی نقصان پہنچنے والا نہیں ہے۔ ہمیں اپنے سفارتخانوں کو متحرک کرنے کی ضرورت ہے۔ لہٰذا ہر سفارتخانے میں سپیشل کشمیر ڈیسک قائم کریں جو کشمیر کی تازہ صورتحال کے بارے میں آگاہی دے اور ان ممالک کی اہم شخصیات سے ملاقاتیں کر کے انہیں کشمیر میں بھارتی مظالم سے آگاہ کیا جائے تاکہ تمام ممالک سے بھارت کے خلاف آواز اٹھے اور وہ بھارت کو مسئلہ کشمیر پر مذاکرات کے لیے مجبور کریں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں