326

ظلم ودرندگی

پروفیسر محمد حسین/حرص‘طمع‘خود غرضی‘نشہ بازی‘کمینہ پن‘غیظ و غضب اور ایسی ہی دوسری خصلتوں میں جو لوگ غرق ہو جاتے ہیں وہ اخلاقی حیثیت سے فی الواقع گراوٹ کی اس انتہا تک پہنچ جاتے ہیں کہ کوئی مخلوق گراوٹ میں اس حد تک پہنچی ہوئی نہیں ہوتی۔مثال کے طور پر صرف اس ایک بات کو لے لیجئے کہ ایک قوم جب دوسری قوم کی دشمنی میں اندھی ہو جاتی ہے تو کس طرح درندگی میں تمام درندوں کو مات دیتی ہے۔درندہ تو صرف اپنی غذاکے لئے کسی جانور کا شکار کرتا ہے جانوروں کا قتل عام نہیں کرتامگر انسان خود اپنے ہی ہم جنس انسانوں کا قتل عام کرتا ہے۔ درندہ صرف اپنے پنجوں اور دانتوں سے کام لیتا ہے مگر احسن تقویم پر پیدا ہونے والا انسان اپنی عقل سے کام کر لے کر توپ‘بندوق‘ٹینک‘ ہوائی جہاز‘ایٹم بم‘ ہائیڈروجن بم اور دوسرے بے شمار ہتھیار ایجاد کرتا ہے تاکہ آن کے آن میں پوری بستیوں کو تباہ کرکے رکھ دے۔درندہ صرف زخمی یا ہلاک کرتا ہے مگر انسان اپنے جیسے انسانوں کو اذیت دینے کے لئے ایسے ایسے دردناک طریقہ سے اختراع کرتا ہے جن کا تصور بھی کسی درندے کے دماغ میں نہیں آ سکتا۔پھر یہ اپنی دشمنی اور انتقام کی آگ ٹھنڈی کرنے کے لئے کمینہ پن کی اس انتہا کو پہنچتا ہے کہ عورتوں کے ننگے جلوس نکالتا ہے۔ ایک ایک عورت کو دس دس بیس بیس آدمی اپنی ہوس کا نشانہ بناتے ہیں۔باپوں‘بھائیوں اور شوہروں کے سامنے اس کے گھر کی عورتوں کی عصمت لوٹتے ہیں۔ بچوں کو ان کی ماں‘باپ کے سامنے قتل کرتے ہیں۔ماؤں کا اپنے بچوں کا خون پینے پر مجبور کرتے ہیں۔انسانوں کو زندہ جلاتے اور زندہ دفن کرتے ہیں۔دنیا میں وحشی سے وحشی جانوروں کی بھی قسم ایسی نہیں ہے جو انسان کی اس وحشت کا کسی درجہ میں بھی مقابلہ کر سکتی ہو۔یہی حال دوسری بُری صفات کا بھی ہے کہ ان میں سے جس کی طرف بھی انسان رخ کرتا ہے اپنے آپ کو ازدل المخلوقات ثابت کر دیتا ہے۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ”اللہ کو ان کاموں سے بے خبر خیال نہ کیجئے جو ظالم کر رہے ہیں وہ توان کواس دن تک مہلت دے رہا ہے‘ جب آنکھیں کھلی کی کھلی رہ جائیں گی سر اوپر کو اٹھائے ہیبت کے مارے جلدی جلدی آنکھیں جھپک رہے ہونگے ان کی نظریں ان کی طرف پھر نہ پلٹیں گی اور ان کے دل پریشان ہوں گے اور لوگوں کو اس دن سے آگاہ کیجئے جب ان پر عذاب آئے گا تو وہ لوگ جو ظالم ہیں کہیں گے ہمارے پروردگار ہمیں تھوڑی سی مدت کے لئے مہلت دے تاکہ ہم تیری دعوت قبول کریں اور رسولوں کی اتباع کریں‘کہا جائے گا تم پہلے قسم نہیں کھا چکے کہ تمہیں کبھی زوال نہ ہو گا اور تم ان لوگوں کے گھروں میں رہ چکے ہو جنہوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا تھا اور تمہیں معلوم ہو چکا تھا کہ ہم نے ان کے ساتھ کیا سلوک روا رکھا اور ہم نے تمہارے لئے مثالیں بیان کر دی تھیں“ (ابراہیم)حضور نبی کریم ؐنے ارشاد فرمایا کہ ”اللہ تعالیٰ ظالم کو ڈھیل دیتا رہتا ہے حتی کی جب اسے پکڑتا ہے تو پھر اسے چھوڑتا نہیں (بخاری ومسلم)رسول کریم ؐنے فرمایا کہ”جس نے اپنے مسلمان بھائی پر عزت یا کسی چیز کے حوالے سے کوئی ظلم کیا ہو تو وہ آج اس سے معاف کرالے اس سے پہلے کہ جب درہم و دینار نہیں ہوں گے اگر اس کے پاس کوئی عمل صالح ہو گا تو وہ اس کے ظلم کے برابر اس سے لیا جائے گا اگر اس کے پاس نیکیاں نہیں ہوں گی تو پھر اس مظلوم سے گناہ لے کر اس ظالم پر ڈال دئے جائیں گے“(بخاری)حضور نبی کریمؐسے مروی ہے کہ آپ ؐنے فرمایا کہ”پانچ قسم کے لوگوں پر اللہ کا غضب ہے اگر وہ چاہے تو اپنے غضب کو ان پر دنیا ہی میں نافذکر دے ورنہ ان کے بارے مین جہنم کا حکم جاری فرما دے‘ایک کسی قوم کا حکمران جب وہ اپنی رعیت سے اپنا حق تو وصول کر لے لیکن اپنی طرف سے
انہیں انصاف فراہم کرئے نہ ان سے ظلم مٹائے‘ دوسرا کسی قوم کا سردار جس کی لوگ اطاعت کرتے ہوں لیکن وہ طاقتور اور کمزور کے درمیان مساوی سلوک نہ کرتا ہو اور وہ اپنی خواہشات کے مطابق گفتگو کرتا ہو‘تیسرا وہ آدمی جو اپنے اہل وعیال کو نہ اللہ کی اطاعت کاحکم دیتا ہے اور نہ انہیں ان کا دین سکھاتا ہے‘ چوتھا وہ آدمی جو کسی مزدور کو کام پر لگاتا ہے وہ اس سے کام تو پورا لیتا ہے لیکن اس کو اس کی اجرت پوری نہیں دیتا‘پانچوں وہ آدمی جس نے اس کے حق مہر کے بارے میں اس سے ظلم کیا“اپنے ذمے حق کی ادائیگی میں قدرت ہونے کے باوجود ٹال مٹول کرنا سب سے بڑا ظلم ہے۔ ایسے شخص کو سزا دینا بے عزت کرنا جائز ہے یعنی اس کی شکایت کرنا اور اسے روکنا قید کرنا جائز ہے۔پس قصاص و بدلے سے ڈر جا جب کل تجھے تیرے ہاتھوں کی کمائی کا انصاف سے پورا پورا بدلہ دیا جائے گاجو تو نے آج کیا ہے۔ حشر کے میدان میں لوگوں کی نگاہیں جھکی ہوں گی عاجزی اور انکساری سے ان کے سر اٹھے ہوئے ہوں گے ان کے اعضاء گواہی بن جائیں گے اور آگ جیل بن جائے گی اور ان کے دروغے سخت گیر ہوں گے۔ آج تم مالدار ہونے کے باوجود حقوق کی ادائیگی میں ٹال مٹول کر رہے ہوکل قیامت تم حالت افلاس میں اس کی ادائیگی کرو گے۔روایت کیا گیا کہ ”روز قیامت بندے کو اس بات میں کوئی تنگی نہیں ہو گی کہ وہ اس شخص کو پہچانے جس نے اس پردنیا میں کوئی ظلم کیا ہو گااور اس کو اپنے اس ظلم کے ازالے کے لئے مطالبہ کرنے میں کوئی ڈر خوف نہیں ہو گا“نبی کریم ؐنے ارشاد فرمایاکہ”قیامت کے دن حقداروں کو ان کے حقوق دلائے جائیں گے حتی کہ سینگوں کے بغیر بکری کو سینگوں والی بکری سے بدلایا جائے گا“(مسلم)رسول کریمؐنے فرمایا کہ”روز قیامت جو سب سے پہلے مقدمہ پیش ہو گا وہ آدمی اور اس کی اہلیہ کا ہو گا اللہ کی قسم اس کی زبان بات نہیں کرئے گی بلکہ وہ دنیا میں اپنے خاوند کو جو تکلیف پہنچایا کرتی تھی اس پر اس کے ہاتھ اوراس کے پاؤں اس کے خلاف گواہی دیں گے اور اسی طرح آدمی جو اپنی بیوی کے خیریاشرکے معاملے کا ذمہ دار ہو گا‘پھر اسی طرح آدمی اور اس کی خادموں کو لایا جائے گااور ان سے درہم ودینار نہیں لئے جاہیں گے بلکہ اس ظالم کی نیکیاں لی جاہیں گی اور اس مظلوم کو دے دی جائیں گی اور اس مظلوم کی خطائیں اس ظالم پر ڈال دی جائیں گی“(طبرانی)رسول کریم ؐنے فرمایا کہ ”اپنے بھائی کی مدد کرو خواہ وہ ظالم ہو یا مظلوم“تو عرض کیا گیا یا رسول اللہؐجب وہ مظلوم ہو گا میں اس کی مدد کروں گا لیکن جب وہ ظالم ہو تو پھر اس کی مدد کیسے کروں؟آپؐ نے فرمایاکہ”تم اسے ظلم سے روکو یہی اس کی مدد ہے“(بخاری ومسلم)

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں