سیاسی رہنماؤں کی خاطر آپس میں الجھنا عقلمندی نہیں

ضیاء بھائی!بہت تنگ آچکا ہوں، نہ وٹس ایپ استعمال کرنے کوجی چاہتا ہے اور نہ ہی فیس بک، ہر طرف سیاست ہی سیاست ہے بلکہ سیاست کے نام پر لڑائی جھگڑے اور طعن و تشنیع ہے۔ ہم وٹس ایپ استعمال کرتے تھے کہ دوستوں سے گپ شپ ہو جائے گی، کوئی اچھی پوسٹ شیئر کر دے گا جس سے محظوظ ہو جائیں گے یا علم میں اضافہ ہو جائے گا لیکن اب تو سوشل میڈیا پر سیاسی جماعتوں کے کارکن چھائے ہوئے ہیں اور انتہائی ٹینشن کا ماحول بنا رکھا ہے، ان کے پاس دوسروں کو محظوظ کرنے کے لیے کوئی مواد نہیں ہے اور نہ ہی معلومات ہیں بس اپنے سیاسی رہنماؤں کا بلا وجہ دفاع اور دوسروں پر الزام تراشی ہی کرتے رہتے ہیں۔یہ الفاظ تھے میرے ایک دوست کے جو سیاست میں دلچسپی نہیں رکھتے اور نہ ہی کسی سیاسی جماعت سے وابستگی رکھتے ہیں۔ انہوں نے مجھ سے شکایت کی کہ میرا تو جی چاہتا ہے سوشل میڈیا کے تمام اکاؤنٹ بند کر دوں اور پھر کبھی استعمال نہ کروں۔ جواباًمیں نے انہیں کہا کہ آپ واقعی یہ نیکی کا کام تو فوراً کریں کہ کم از کم رمضان میں نہ استعمال کریں بلکہ ذکر و عبادت میں مشغول رہیں، رمضان المبارک کے بعد آپ دیکھ لیجیے گا حالات کچھ بہتر ہوئے اور سیاسی کارکنوں کو اگر ذرا سی ہدایت نصیب ہو گئی تو استعمال کر لیجیے گا۔
یہ تو ایک دوست کی کہانی تھی مگر یہاں تمام لوگ ہی ان جھگڑوں سے تنگ ہیں۔ ہر وقت سوشل میڈیا پر جنگ کا سماں رہتا ہے۔ تہذیب،اخلاق و آداب سے نابلد سیاسی جماعتوں کے کارکن دوسروں پر طعنہ زنی کرنے میں ہمہ وقت مشغول ہیں اور اپنے رہنماؤں کی تعریفوں میں بلاوجہ رطب اللسان ہیں۔ سوشل میڈیا کی کوئی بھی ویب سائٹ دیکھ لیں ان جھگڑوں کے سوا کچھ نہیں ملتا۔ یہاں دوسروں کو گالیاں دی جا رہی ہیں ایک دوسرے کے خلاف نہایت غلیظ زبان استعمال ہو رہی ہے، بغیر علم کے دوسروں پر الزامات لگائے جا رہے ہیں۔ پھر یہ بھی نہیں دیکھتے کہ جس پلیٹ فارم پر ہم یہ گفتگو کر رہے ہیں کیا یہ اسی مقصد کے لیے بنا ہے؟ ہر پیج، ہر گروپ میں انہوں نے یہی بحث چھیڑ رکھی ہے۔ وہ گروپ بزنس کے ہوں یا انٹرٹینمنٹ کے حتیٰ کے فیملی اور دوستوں کے گروپوں میں بھی اس قسم کے جنونی سیاسی کارکن اس جھگڑے کو لے کر پہنچے ہوئے ہیں۔ جس کی وجہ سے ہر طرف نفرت کی فضا قائم ہے۔ دوست دوستوں سے اور بھائی بھائیوں سے الجھ رہے ہیں۔جس سے دلوں میں کدورتیں پیدا ہو رہی ہیں، ظاہر ہے جب ایک شخص شرارت کر کے کسی سیاسی رہنما کے خلاف کوئی بات کرے گا یا کوئی پوسٹ شیئر کرے گا تو دوسرے رہنما کے چاہنے والے اس کا جواب تو دیں گے اور پھر ہمارے ہاں ماننے کا مادہ بھی نہیں ہے اس لیے پہلے والا دوبارہ اس کا جواب دے گا اس طرح یہ بحث طویل سے طویل تر ہوتی چلی جاتی ہے۔ میں تو اب ایسے گروپ کم ہی دیکھتا ہوں لیکن ایک دن نہ دیکھوں تو کئی کئی سو بلکہ ہزار سے بھی زیادہ میسج جمع ہو جاتے ہیں۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ہمارے نوجوان کتنے نکمے ہیں کہ وہ ایسی فضول گفتگو جس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلنا اور نہ ہی ان کے بس میں کچھ ہے اس کے لیے کتنا وقت برباد کرتے ہیں۔
جتنے بھی سیاسی کارکن ہیں ان میں سے کسی کے پاس بھی ٹھوس معلومات یا ثبوت نہیں ہیں۔ بس کہیں سے کچھ سن لیا تو پوسٹ بنا کر شیئر کر دی اور جھگڑے کا آغاز ہو گیا۔ پھر اس بار تو ایک نئی روایت نے جنم لیا ہے کہ لوگ سوشل میڈیا پر پوسٹس کر رہے ہیں کہ جو فلاں لیڈر کو مانتا ہے یا فلاں کو نہیں مانتا وہ میرے ساتھ دوستی نہ رکھے (ان فرینڈ ہو جائے) وغیرہ۔ نہ جانے ہمارے نوجوان کس طرف جا رہے ہیں؟
پھر یہ بھی لمحہ فکریہ ہے کہ ان کی صلاحیتیں کہا صرف ہو رہی ہیں۔ یہ سارا دن بلکہ ساری رات بھی بیٹھ کر سیاسی رہنماؤں پر تحقیقی کر تے ہیں اور پھر پوسٹیں بنا بنا کر سوشل میڈیا پر شیئر کر تے ہیں، یہ دوسروں پر جھوٹے الزامات لگانے سے بھی باز نہیں آتے، حقائق کے برخلاف تصاویر کو ایڈٹ کر کے اسے کچھ کا کچھ رنگ دے دیتے ہیں جو نہایت قبیح عمل اور باعث گناہ ہے۔ وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ ان پوسٹوں سے انہیں یا ملک و قوم کو کوئی فائدہ نہیں ہونے والا۔ ہونا وہی ہے جو اوپر والے چاہیں گے یا ہماری شامت اعمال کی وجہ سے اللہ رب العزت چاہیں گے۔ ہماری ان پوسٹوں سے کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا اس کے باوجود اپنا قیمتی وقت ان فضول کاموں میں ضائع کر رہے ہیں۔ اس کی بجائے کسی اور کام میں یہ وقت لگا لیں سیاستدانوں کی بجائے کئی اور اچھے موضوع پر تحقیق کر کے ایک دوسرے کے ساتھ اس کے متعلق معلومات شیئر کریں تو اس سے بہت فائدہ ہو۔ ایک دوسرے کو آگاہی فراہم کریں۔ نکمے بیٹھ کر زہر گھولنے سے بہتر ہے کہ کوئی اور ڈھنگ کا کام کر لیں کم از کم کوئی کتاب ہی پڑھ لیں۔ مگر یہاں تو کچھ اور ہی چل رہا ہے۔ اس زہر گھولنے میں ہمارے میڈیا اور بڑے بڑے نامور اینکرز اور صحافیوں کا بھی بڑا ہاتھ ہے جو کسی بھی ایک سیاسی جماعت کو پسند کرنے لگتے ہیں تو اس کی تعریفات میں تمام حقائق کو مسخ کر کے رکھ دیتے ہیں جس سے نوجوانوں پر نہایت منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
اگر یہ سیاسی کارکنان تعصب کو پس پشت ڈال کر ایک بار تمام سیاستدانوں کی کارکردگی کا جائزہ لیں تو انہیں سب ایک جیسے نظر آئیں گے۔ کوئی دوسرے سے مختلف نہیں ہے۔ تمام کے تمام ملک و قوم کو تباہ کرنے کے ذمہ دار ہیں، ملک کو مہنگائی، بے روزگاری،کرپشن اور قرضوں جیسی لعنت میں سب نے مل جل کر جکڑا ہے بلکہ ایک دوسرے سے بڑھ کر کردار ادا کیا ہے، ہر آنے والا پہلے والے سے دو ہاتھ ٓآگے ہے اور عوام کی سوچ اگر یونہی رہی تو اس بات کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ آئندہ بھی یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہے گا۔
لہٰذا میری تمام نوجوانوں سے دست بستہ گزارش ہے کہ ان سیاسی رہنماؤں کے واسطے آپس میں مت الجھو، یہ سب کے سب اپنے اپنے مفادات کے غلام ہیں اور آپ کو بھی ذاتی مفادات کے لیے استعمال کرتے ہیں جبکہ انہوں نے پہلے بھی آپ کو کچھ نہیں دیا اور اگر ہماری روش یوں ہی رہی تو آئندہ بھی نہیں ملنے والا۔ لہٰذا ان مفاد پرست لوگوں کے لیے آپس کے تعلقات مت خراب کریں آپ میں شیر و شکر ہو کر رہیں۔ میں ذاتی طور پر سیاست میں بہت زیادہ دلچسپی لیتا ہوں بلکہ عملی سیاست میں حصہ لینے کا بھی خواہشمند ہوں لیکن میں بھی سوشل میڈیا پر نوجوانوں کی پوسٹوں سے تنگ آ چکا ہوں کیونکہ یہ سیاست نہیں جہالت ہے۔ اس لیے اپنے اندر شعور پیدا کریں اور لکیر کے فقیر مت بنیں۔ آخر میں ٹوٹے پھوٹے دو مصرعے جو میں نے 2018کے انتخابات کے وقت سیاسی کارکنوں کے حالات کو دیکھ کر کہے تھے وہ آپ کی خدمت میں پیش کر کے اجازت چاہتا ہوں:
لیڈروں کے واسطے نہ آپس میں الجھو
لیڈر چاہے خان ہو، زرداری یا شریف
ایک ہی سوچ سب کی ایک ہی مفاد ہے
گرچہ ہیں بظاہر ایک دوجے کے حریف

[wpdiscuz-feedback id=”omevo4vngj” question=”Please leave a feedback on this” opened=”0″][/wpdiscuz-feedback]

سیاسی رہنماؤں کی خاطر آپس میں الجھنا عقلمندی نہیں“ ایک تبصرہ

اپنا تبصرہ بھیجیں