دنیا کے شور میں سب کچھ سنائی دیتا ہے، مگر ایک آواز ہے جو اکثر دب جاتی ہے — ضمیر کی آواز۔ یہ وہ اندرونی صدا ہے جو انسان کو اچھے اور برے کی تمیز سکھاتی ہے، جو تنہائی میں بھی ساتھ رہتی ہے، اور جو ہمیں یاد دلاتی ہے کہ انسان ہونے کا مطلب صرف جینا نہیں بلکہ احساس کے ساتھ جینا ہے۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ آج کے دور میں یہ آواز مدھم پڑ چکی ہے، جیسے کسی نے ہمارے اندر کے انسان پر نیند کا جادو کر دیا ہو۔
ہم زندہ ہیں، مگر شاید جاگ نہیں رہے۔ ہماری آنکھیں سب کچھ دیکھتی ہیں مگر دل خاموش ہے۔ کسی کے ساتھ ظلم ہو جائے، کسی کا حق چھن جائے، کسی ماں کی گود اجڑ جائے — ہم لمحہ بھر کے لیے افسوس تو کرتے ہیں، مگر اگلے ہی لمحے موبائل کی اسکرین پر نیا منظر ہمیں اس درد سے کاٹ دیتا ہے۔ یہی وہ خاموشی ہے جو سب سے خطرناک ہے، کیونکہ جب **ضمیر سوجاتا ہے تو انسانیت مرنے لگتی ہے۔**
آج کے معاشرے میں بے حسی عام ہو چکی ہے۔ کسی چور کو سڑک پر مارا جائے تو لوگ انصاف کے بجائے ویڈیو بنانے لگتے ہیں۔ کسی حادثے کی خبر آئے تو تبصرے شروع ہو جاتے ہیں — “کتنے افسوس کی بات ہے” کہہ کر ہم اپنا فرض ادا سمجھ لیتے ہیں۔ لیکن سچ تو یہ ہے کہ افسوس کرنے والا معاشرہ نہیں، عمل کرنے والا معاشرہ زندہ ہوتا ہے۔ ہم نے ضمیر کو جذبات کے شور میں دفن کر دیا ہے، اور اب ہم اجتماعی طور پر خاموش تماشائی بن چکے ہیں۔
ضمیر کی یہ نیند صرف افراد کی نہیں بلکہ اداروں، قوموں اور نظاموں کی بھی ہے۔ جہاں طاقتور کے لیے قانون نرم ہو جائے، جہاں کمزور کی فریاد سننے والا نہ ہو، جہاں جھوٹ سچ سے زیادہ قابلِ قبول لگے، وہاں یقیناً کسی نہ کسی نے ضمیر کے چراغ بجھا دیے ہوتے ہیں۔ ہم نے ترقی تو کر لی، مگر احساس کھو دیا۔ بلند عمارتیں بنا لیں، مگر اخلاق کی بنیادیں ہلا دیں۔
یہ سچ ہے کہ انسان جب اندر سے سو جائے تو باہر کا شور بھی اسے نہیں جگا سکتا۔ میڈیا چیختا ہے، سڑکوں پر احتجاج ہوتے ہیں، تقریریں کی جاتی ہیں — مگر تبدیلی نہیں آتی، کیونکہ مسئلہ نظام کا نہیں، ضمیر کا ہے۔ جب دل کا پیمانہ ٹوٹ جائے تو قانون کے ترازو میں بھی انصاف تولنا مشکل ہو جاتا ہے۔
ہم اپنے بچوں کو تعلیم تو دیتے ہیں مگر تربیت بھول گئے ہیں۔ ہم ترقی کے خواب دکھاتے ہیں مگر انسانیت کے سبق چھپا لیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ نئی نسل سچ اور جھوٹ کے فرق سے زیادہ فائدہ اور نقصان کے فرق میں سوچنے لگی ہے۔ یہ وہ وقت ہے جب ہمیں اپنے اندر کے انسان کو جگانے کی ضرورت ہے، کیونکہ سویا ہوا ضمیر کسی بھی مہذب معاشرے کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے۔
انسان کا اصل حسن اس کے چہرے میں نہیں، اس کے ضمیر کی بیداری میں ہے۔ اگر دل میں درد زندہ ہے تو امید باقی ہے۔ اگر ہم کسی کے دکھ پر بے چین ہو جاتے ہیں، کسی کی بھوک ہمیں سوچنے پر مجبور کر دیتی ہے، کسی مظلوم کی صدا ہمیں رات بھر سونے نہیں دیتی — تو یہ اس بات کی علامت ہے کہ ابھی ضمیر پوری طرح نہیں سویا۔ لیکن اگر ہم دوسروں کے درد کو معمول کی خبر سمجھنے لگیں، تو سمجھ لیجیے کہ اندر کا انسان مر چکا ہے۔
یہ خاموشی خطرناک اس لیے ہے کہ یہ معاشروں کو اندر سے کھوکھلا کر دیتی ہے۔ یہ وہ زنگ ہے جو آہستہ آہستہ کردار، اخلاق اور احساس کو چاٹ جاتا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ طاقتور سلطنتیں تلواروں سے نہیں، ضمیر کی غفلت سے گری ہیں۔ جب انصاف کمزور اور خود غرضی طاقتور ہو جائے، تو کسی بھی قوم کا زوال یقینی ہو جاتا ہے۔
لیکن ابھی دیر نہیں ہوئی۔ اگر ہم سننے لگیں — دوسروں کی بھی اور اپنے دل کی بھی — تو شاید یہ نیند ٹوٹ سکتی ہے۔ کسی بھوکے کو کھانا دینا، کسی بچے کے چہرے پر مسکراہٹ لانا، کسی مظلوم کے لیے آواز اٹھانا، کسی غلط بات پر خاموش نہ رہنا — یہ سب وہ چھوٹے چھوٹے عمل ہیں جو ضمیر کو بیدار رکھتے ہیں۔ معاشرے میں روشنی بڑے دعووں سے نہیں، چھوٹے احساسات سے پھیلتی ہے۔
ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ خاموش رہنا ہمیشہ عزت کی علامت نہیں ہوتا۔ بعض اوقات خاموشی گناہ بن جاتی ہے۔ اگر کسی ناانصافی کے وقت ہم بول نہیں سکتے تو کم از کم اتنا ضرور سوچیں کہ کل کوئی ہمارے ساتھ بھی ایسا کرے تو ہمیں کیسا لگے گا؟ ضمیر کو جگانے کے لیے بڑے فلسفے نہیں، صرف ایک لمحے کی سچی سوچ کافی ہوتی ہے۔
دنیا میں سب سے بڑی طاقت انسان کا ضمیر ہے۔ یہ عدالت سے بڑی عدالت ہے، اور سزا سے بڑی سزا بھی دے سکتی ہے — خود کی نظروں سے گر جانا۔ ہم سب کے اندر ایک ایسی عدالت موجود ہے جس کا فیصلہ کوئی دوسرا بدل نہیں سکتا۔ اگر ہم نے اس عدالت کو جگا لیا، تو شاید دنیا پھر انسانوں سے نہیں، انسانیت سے پہچانی جائے۔
آخر میں یہی کہنا کافی ہے کہ:
معاشرہ اس دن برباد نہیں ہوتا جب جھوٹ بولنے والے بڑھ جائیں، بلکہ اس دن جب سچ بولنے والے خاموش ہو جائیں۔
اور یہی خاموشی — ضمیر کی نیند — سب سے خطرناک خاموشی ہے۔
