چوہدری محمد اشفاق
صحافی کو معاشرے کی آنکھ سمجھاجاتا ہے اس کی آنکھ وہ بہت کچھ دیکھ سکتی ہے جو عام آدمی کی آنکھ نہیں دیکھ سکتی ہے معاشرے کا ہر فرد اپنے کام کی کسی نہ کسی طرح مزدوری حاصل کر لیتا ہے لیکن صحافت وہ واحد پیشہ ہے جس کی کوئی مزدوری نہیں ہے بلکہ اس پر بے شمار اخراجات آتے ہیں جو صحافی خود برداشت کرتا ہے صحافی دن بھر خوار ہوتے ہیں وہ رات بھر جاگتے ہیں وہ دھمکیاں بھی سنتے ہیں وہ گالیاں بھی سنتے ہیں وہ جان بھی لڑاتے ہیں وہ جان کی بازی بھی لگاتے ہیں وہ میلوں پیدل بھی چلتے ہیں وہ یہ سب کچھ اپنے لئے نہیں بلکہ دوسروں کے لیے کرتے ہیں تاکہ آپ لوگوں تک ہر خبر پہنچا سکیں یہی صحافی کا پیشہ ہے یہی اس کا مقصد ہے وہ نہ پیسے کے لیے نہ لالچ کے لیے کیونکہ صحافی وہ سب کچھ آپ کے لیے سہتا ہے صحافی ہی کی بدولت آپ گھر میں بستر پر سو کر پوری دنیا کی معلومات حاصل کر سکتے ہیں صحافی نہ ہو تو آپ کے گھر اخبار نہ آئے آپ کے گھر کوئی نیوز چینل نہ چلے آپ کو کوئی یہ بتانے والا نہ ہو کہ آپ کے آس پاس کیا ہو رہا ہے اور دنیا بھر کے حالات کیا ہیں آپ کو با خبر صرف صحافی ہی رکھتا ہے صحافی کے بغیر آپ کی زندگی صرف آپ کے گھر تک محدود ہو لیکن صحافی کے ہوتے ہوئے آپ کی نظر پودی دنیا تک ہے اور وہ یہ سب کچھ بلکل بے لوث کر رہا ہے ان تمام کاموں کے پیچھے اس کا کوئی لالچ کا رفرما نہیں ہوتا ہے بلکہ وہ یہ سب کچھ صرف اس سچے جذبے کے تحت کر رہا ہے جس کا مقصد خود کو مشکل میں ڈال کر دوسروں کے لیے آسانیاں پیدا کرنا ہے صحافی صرف عزت کا بھوکا ہوتا ہے وہ اپنے تمام مسائل کا حل صرف عزت میں سمجھتا ہے صحافی ہی معاشرے کا وہ واحد فرد ہوتا ہے جس کی نظر اپنے علاقے میں موجود ہر سرکاری ادارے ہر سیاستدان اور اس طرح کے دیگر شعبوں پر ہوتی ہے جب سرکاری اداروں میں عام آدمی کی کو ئی شنوائی نہ ہو تو موجودہ وقت میں صرف صحافی ہی وہ پلیٹ فارم ہے جو کسی بھی سرکاری افسر یا اہلکار سے پوچھنے کی ہمت رکھتا ہے کہ آپ نے فلاں شخص کے ساتھ کوئی زیادتی کیوں کی ہے عام آدمی کی کبھی بھی یہ جرات نہیں ہوتی کہ وہ ایسا کام کر سکے جب مریض اسپتال کے احاطے میں تڑپ رہا ہو اور ہسپتال کا عملہ اس کے پاس جانا بھی گوارہ نہ کرے تو صحافی ہونے کے ناطے وہ کبھی بھی خاموش نہیں ر ہ سکتا ہے وہ ضرور مداخلت کرتا ہے جب تھا نوں میں غریب اور مظلوم کے ساتھ زیادتی ہو رہی ہو تی ہے تو صحافی ضرور مداخلت کرتا ہے اور یہی اس کی صحافتی زمہ داریوں کا تقاضا بھی ہے لیکن ہوتا یوں ہے کہ سرکاری ادارے اپنی خامیوں پر پردہ ڈالنے کے لیے صحافی پر کار سرکار میں مداخلت کا مقدمہ درج کروادیتے ہیں جو کہ ایک بہت بڑی زیادتی ہے اور ایسے اقدامات کا مقصد صحافیوں کو پیشہ وارانہ زمہ داریوں سے روکنا ہے سرکاری ادارے خود بھی اپنا قبلہ درست نہ کریں کوئی صحافی بھی ان کے معاملات میں مداخلت نہ کرے تو یہ بے چارے غریب لوگ کدھر جائیں گئے پولیس کی طرف ہونے والی زیادتیوں کو کون منظر عام پر لاتا ہے ڈاکٹر کی طرف سے مریض کے ساتھ زیادتی کون اعلی حکام تک پہنچا رہا ہے اگر صحافی بھی یہ کام چھوڑدیں تو معاشرے میں ہر طرف جنگل کاقانون ہو جائے کوئی کسی کو پو چھنے والا نہ ہو یہ کتنی بڑی ناانصافی ہے کہ عوام اور سرکاری اداروں کے درمیان پل کاکردار ادا کرنے والا صحافی جب اپنے فرائض دیا نداری سے انجام دینے کی کوشش کرتا ہے تو اس پر کار سرکار میں مداخلت کا الزام لگا دیا جاتا ہے لیکن وہ پھر بھی گھبراتا نہیں ہے بلکہ اپنے فرائض پہلے سے بھی زیادہ بہتر طریقے سے ادا کرنے کی کوشش کرتاہے حکومت کو چاہیے کہ وہ کار سرکار میں مداخلت کے قانون پر نظر ثانی کرنے ان میں کچھ ترامیم کی جائیں کسی بھی شخص پر یہ مقدمہ درج ہونے سے پہلے واقع کی انکوائری ہو نی چاہیے اگر کسی صحافی یا دیگر شخص پر کوئی بات مکمل ثابت ہو جائے تو پھر اس طرح کا کیس درج ہو بصورت دیگر اس قانون کا مطلب صرف یہ سمجھا جائے گا کہ یہ قانون سرکاری اداروں کی خامیوں پر پردہ ڈالنے کے لیے بنایاگیاہے اس قانون کو سرکاری ادارے بطور ڈھال استعمال کرتے ہیں اور اپنی خامیوں اور کوتاہیوں پر پردہ ڈالنے اور عام لوگوں پر دباؤ بڑھانے کے لیے بلا خوف خطر استعمال کرتے ہیں کار سرکار مداخلت سے متعلق اختیارات سرکاری اداروں کے سربراہان کے پاس نہیں ہونے چاہیں بلکہ یہ اختیارات علاقہ مجسٹریٹ کے پاس ہونے چاہیے جو سرکاری اداروں کی شکایات کے متعلق انکوائر ی مکمل کر کے اس پر عملدرآمد کے لیے احکامات جاری کرے بے گناہی اور بے بنیاد مقدمات کے اندراج پر سرکاری افسران کے خلاف کاروائی بھی عمل میں لائی جائے ۔
159