سوشل میڈیا پر گزشتہ چند روز سے گوجرخان ٹریفک وارڈنز کے خلاف یہ رپورٹنگ ہوتی چلی آ رہی ہے کہ میل و فیمیل وارڈنز شہر کی مصروف سڑکوں پر ٹریفک کی روانی بہتر کرنے کی بجائے موٹر سائیکل سواروں کو روک روک کر نہ صرف انکے چالان کر رہی ہے بلکہ انکے خلاف پرچے بھی دئیے جا رہے ہیں اس روئیے کے خلاف ایک بزرگ رکشہ ڈرائیور شبیر خان پریس کلب جا پہنچے جہاں انھوں نے دہائی دی کہ ٹریفک وارڈن نے اس سے سخت زیادتی کرتے ہوئے اس کے خلاف پرچہ کٹوایا وہ رات بھر حوالات رہا اور اسکے ہزاروں روپے اس ناجائز کارروائی پر صرف ہو گئے اس نے سی ٹی او سے غیر جانبدارانہ اور شفاف انکوائری کا مطالبہ بھی کیا اور کہا کہ اس انکوائری میں اگر میں مجرم ثابت ہوں تو ہر سزا بھگتنے کو تیار ہوں،اس پر گوجرخان میں ٹریفک یونٹ کے انچارج چوہدری قاسم سے ملاقات میں موقف جاننے کی کوشش کی گئی جو کہ نظر قارئین ہے۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایاکہ ٹریفک وارڈنز کی اولین ذمہ داری تو بلا تعطل ٹریفک کی روانی کو یقینی بنانا ہے، لیکن حکومت کی ہدایت کے مطابق ایسے لوگوں کو جو کہ بغیر لائسنس کے موٹر سائیکل یا رکشا چلا کر نہ صرف مروجہ قوانین کی خلاف کے مرتکب ہو رہے ہوتے ہیں بلکہ کئی راہ چلتے افراد،بوڑھوں بچوں کی زندگیوں کے لئے خطرہ کا نہ صرف باعث بنتے ہیں بلکہ ان اناڑی خصوصا رکشہ ڈرائیورز کی وجہ سے کئی گھروں کے چراغ بجھ چکے ہیں، پیدل چلنے والوں کو ایسے اناڑی کم عمر بغیر لائسنس والے ڈرائیوروں سے بچانے کے لئے واحد حل انکے چالان کرنا ہے تاکہ وہ
اس معاملے کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے اپنا ڈرائیونگ لائسنس حاصل کریں اور پرچے ان افراد کے خلاف دئیے جا رہے ہیں جو اپنی سواری ایسی جگہ کھڑی کر کے ادھر ادھر ہو جاتے ہیں جس سے ٹریفک بلاک ہو گئی ہو، مذکورہ شبیر خان نے بھی اپنا رکشہ ایسی جگہ کھڑا کیا تھا جس سے ٹریفک کی روانی میں خلل ا ٓرہا تھا اور باجود وارننگ دینے کے وہ شخص ہٹ دھرمی پر اتر آیا تھا جس پر قواعد کے مطابق اس پر پرچہ دیا گیا، چوہدری قاسم نے دعوی کیا کہ اس معاملے پر ضرور انکوائری ہونی چاہئے کہ میرے ٹریفک وارڈن نے اس کے خلاف کوئی گالم گلوچ نہ کی ہے اور نہ ہی ناجائز طور پر اسکو تنگ کیا ہے،ہم جو بھی کچھ کرتے ہیں قانون کے دائرے میں رہ کر کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے ان ریڑھی والوں پر ضرور پرچے دئیے ہیں جو ہسپتال کے فٹ پاتھ پر ریڑھی لگا کر پیدل چلنے والوں کا راستہ بند کر دیتے ہیں جس سے ہسپتال کے قریب جہاں ایمرجنسی صورتحال میں مریض لائے جاتے ہیں ٹریفک جام ہو نے سے کسی مریض کی جان جا سکتی ہے۔
اس پر ان ریڑھی والوں سے بھی انکا موقف لیا گیا جس پر انھوں نے بتایا کہ انھوں نے بلدیہ سے باقاعدہ اجازت لے رکھی ہے جس کا کرایہ وہ بلدیہ کو ادا کرتے ہیں اور ادھر ٹریفک والے بھی ہمارے پیٹ اور روزی پر لات مارتے ہیں ہم کہاں جائیں؟
صبح سکول ٹائم اور چھٹی ٹائم دونوں سروس روڈ پر بے گناہ رش ہوتا ہے اس وقت ٹریفک کی بلا تعطل فراہمی آپ کیسے یقینی بناتے ہیں کیوں مبینہ طور پر تو آپکے وارڈنز ہیلمٹ اور لائسنس کے چالان کاٹ کاٹ کر گورنمنٹ کے لئے ریونیو اکٹھا کر رہے ہوتے ہیں کے سوال کے جواب میں انہوں نے بتایاکہ ہم بالکل بھی ریونیو اکٹھا کرنے کے لیے چالان نہیں کرتے بلکہ ہم چاہتے ہیں کہ دنیا کے دیگر ترقی یافتہ ممالک کی طرح یہاں کے شہری بھی قواعد کے مطابق پہلے لائسنس حاصل کریں پھر موٹر سائیکل، رکشہ یا کوئی اور گاڑی روڈ پر لے کر آئیں، دنیا کا کوئی ترقی یافتہ ملک بتا دیں جہاں سائیکل بھی بغیر ہیلمٹ کے چلانے کی اجازت ہو؟ لاقانونیت کو ختم کرنے کے لیے ہی تو گورنمنٹ چالان اور جرمانے کی سزا دیتی ہے۔
گوجرخان کی ٹریفک کے مسائل کو حل کرنے کے لیے سب سے پہلے تو شہر کی انتظامیہ کو چاہئے کہ وہ قواعد کے مطابق ہر بنک، ہسپتال وغیرہ کو بغیر اپنی پارکنگ مختص کئے بنک یا ہسپتال بازاروں میں بنانے کی اجازت نہ دے، اب ریلوے روڈ کو دیکھ لیں کم و بیش چھ سات بنک موجود ہیں لیکن ایک کی بھی اپنی پارکنگ موجود نہیں، اسی طرح بے شمار ہسپتال پارکنگ کی سہولت کے بغیر چل رہے ہیں۔ دوسرا انتظامیہ کو چاہئے کہ وہ موٹر سائیکل و کار چوری کے تدارک کے لئے پارکنگ ایریا بنائیں جہاں شہروں میں آنے والے افراد اپنی سواریاں محفوظ طریقے سے کھڑی کر سکیں۔ تاجر اور دیگر شہری تنظیموں کو پارکنگ ایریاز بنانے کے لئے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔
سوال: کیا آپ گوجرخان کے شہریوں کے لئے چالان اور پرچوں کے اس سیلاب میں ہماری اپیل پر کچھ کمی کر سکتے ہیں؟
جواب: ہسنتے ہوئے جی بالکل آپ ایک استاد بھی ہیں اور پہلی دفعہ کسی صحافی نے ہمارا موقف کو سامنے لایا ہے ہماری بھی کوشش ہوتی ہے بلاوجہ شہریوں کے چالان اور ایف آئی ار دنہ دی جائیں، گوجرخان کی عوام سے بھی ہماری اپیل ہے کہ وہ جلد از اپنا ڈرائیونگ لائسنس جاری کروائیں پھر موٹر سائیکل،رکشہ یا گاڑی روڈ پر لے کے آئیں، خود بھی محفوظ ہوں اور دوسروں کو بھی محفوظ رکھیں۔