شاہد جمیل منہاس کی کتاب اپنی بات

شاہد جمیل منہاس اس زمرے میں تو یقینا آتے ہی ہیں کہ جن کے کالموں میں اپنی ادبی چاشنی اور حالاتِ حاضرہ سے آگاہی کے ساتھ ساتھ فکری اور تجزیاتی پہلو بھی نمایاں ہوتے ہیں، لیکن ان سب سے بالاتر اُن کے کالموں کا طرہئ امتیاز میرے نزدیک یہ ہے کہ یہ ایک عاشقِ رسول ﷺ، ایک خوبصورت نعت گو شاعر اور لحنِ داؤدی کے حامل ایک نعت خواں نے لکھے ہیں جس کے دو نعتیہ مجموعے بھی شائع ہو چکے ہیں۔ میرے خیال میں ان کے کالموں کے تعارف میں یہ نعت کا حوالہ ہی اتنا مضبوط ہے کہ اس کے بعد ان کی راست فکری،ان کی یکسوئی اور ان کے کالموں کے افادی و اصلاحی پہلو کے ساتھ قومی و ملکی حوالوں سے اُن کی شدّتِ احساس اور دردمندی پر مزید کوئی بات کرنے کی ضرورت نہیں رہتی۔ایک کالم نگار جس کی بنیاد ہی عشقِ رسول ﷺ ہو، وہ یقینا اپنے کالموں میں عوام الناس کو وہی پیغام دے گا جس کا اول و آخر قرآن و سنّت کی تعلیمات و ہدایات پر مبنی ہو گا۔چنانچہ شاہد جمیل منہاس کی اس کتاب میں شامل تمام کالموں کا جب مَیں نے مطالعہ کیا تو نہ صرف میرے اس یقین کی تصدیق و تائید ہوئی بلکہ اِس بات پر فخر بھی ہوا کہ اِن پُرخیال، سماجی و ثقافتی حوالوں سے فکر انگیز کالموں کا دیباچہ لکھنے کا اعزاز مجھے حاصل ہو رہا ہے۔کالم عوام کے لیے لکھے جاتے ہیں اس لیے ان میں زبان بھی سلیس اور عام فہم استعمال ہوتی ہے۔ یہی شاہد جمیل منہاس نے بھی کیا ہے۔تاہم ایک اچھے ادیب اورکالم نگار کا منصب یہ بھی ہوتا ہے کہ وہ عوام کو بھی ان کی عمومی سطح سے کچھ اوپر اٹھائے اور ان کی تفہیمی صلاحیت میں اضافہ کرے تا کہ وہ ان موضوعات پر لکھی ہوئی تحریروں کا بھی ادراک کر سکیں جو ان کی عمومی ابلاغی صلاحیت سے بالاتر ہوتے ہیں۔شاہد جمیل منہاس نے کالم نگاری کے ساتھ ساتھ یہ اہم ادبی ذمّہ داری بھی کامیابی کے ساتھ نبھائی ہے اور ان کے کالموں کی ادبی چاشنی اور فکری رچاؤ ابلاغ کے لحاظ سے عام قاری کے لیے کہیں کوئی مسئلہ پیدا نہیں کرتا۔ا ن کے کالم انفرادی مسائل کی بجائے اجتماعی مسائل اور موضوعات کا احاطہ کرتے ہیں، تاہم اگر کہیں انہوں نے کسی انفرادی مسئلے یا موضوع کو موضوعِ قلم بنایا بھی ہے تو اس کا حتمی ہدف فرد نہیں، معاشرہ ہے، گویا علّامہ اقبالؔ کے لفظوں میں:”فرد قائم ربطِ مِلّت سے ہے، تنہا کچھ نہیں“اِس حوالے سے ان کے ایک کالم ”اجتماعی ترقی صرف انفرادی ترقی سے“میں سے یہ اقتباس پیش کرنا ضروری سمجھتا ہوں:”ایک ملک کی کامیابی یہ ہے کہ اس کے تمام صوبے، اس ملک کے تمام اضلاع اور اس ملک کا کونہ کونہ ترقی یافتہ ہو یا ترقی کی منازل طے کرتا رہے۔ اور دوسری طرف نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اگر افراد اپنی ترقی کے لیے محنت کریں تو وہ خود تو ترقی یافتہ ہوں گے مگر یہ ملک اور اس کے تمام صوبے اور اضلاع یعنی ملک کا کونہ کونہ ترقی یافتہ نظر آئے گا۔ظاہر یہ ہوا کہ کسی ملک کے سربراہ کو ملکی ترقی کے لیے عوام کی ترقی پر توجہ دینا ہو گی۔ اور عوام کو چاہیے کہ ملکی ترقی کو پروان چڑھانے کے لیے اپنی ترقی کی خاطر محنت کریں۔ یہ تمام عوامل مل کر انفرادی ترقی اور قومی ترقی کو یقینی بناتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے۔ یعنی ایک ہاتھ اگر تالی بجانا چاہے تو یہ ٹال مٹول ہی کہلائے گی نہ کہ تال یا تالی۔ یعنی ایک گھر، محلے اور شہر تک ایک ہاتھ کی کامیابی کے لیے دوسرے ہاتھ نے اپنا کردار ادا کرنا ہے۔ ورنہ دونوں ناکام۔ جیسے کہ تالی بجانے کے لیے دونوں کو حرکت میں آنا ہو گا۔ بالکل ایسے ہی کسی معاشرے کی اجتماعی ترقی کے لیے تمام افراد اور تمام ادارے مل کر مقاصد کے حصول کے لیے اپنا دن رات ایک کریں گے تو تب جاکر آنے والی نسلیں ان افراد اور اہلِ اقتدار کے کارنامے اپنی کتابوں میں رقم کر کے انہیں نصاب کا حصہ بنانے پر مجبور ہوں گے۔“شاہد جمیل کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ کسی ایک سماجی اور معاشرتی مسئلے کو بیان کرتے ہیں پھر تحقیقی اور علمی انداز میں اس کے مختلف پہلو سامنے لاتے ہیں اور پھر ان پہلوؤں کی روشنی میں نتائج اخذ کرتے ہیں اور اس مسئلے کو حل کرنے کے لئے انہیں اور دوسروں کو انفرادی اور اجتماعی طور پر جوکردار ادا کرنا چاہیے اس کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔یوں وہ اپنے معاشرے کا ایک ذمہ دار فرد، ایک باضمیر صاحبِ علم صحافی اور ادیب ہونے کا فرض ادا کرتے ہیں۔ان کے مخاطب عوام اور اہلِ دانش ہی نہیں، پریس میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا کے وہ کرتا دھرتا بھی ہیں جنہوں نے مخصوص مقاصد و عزائم اور سنہری سکّوں کی ”چمک“ کی وجہ سے حقائق کو چھپا کر افواہ سازی اوربے جا تشہیری رجحان کو اپنا کر انفرادی اور اجتماعی سطحوں پر معاشرے کے لیے بیشمار مسائل کھڑے کر دیے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں:”ایمان کی درستگی واحد ذریعہ ہے ان تمام آفات سے نجات حاصل کرنے کا۔ اگر ہم اپنی اولاد سے انصاف کرتے ہیں تو ہم کامیاب۔ اگر ہم اپنی بیویوں کو حقیر جاننے کی بجائے انصاف کرتے ہیں تو ہم کامیاب۔ اگر ہم بند کمرے میں بھی یہ خیال کرتے ہیں کہ ہمارا رب ہمیں دیکھ رہا ہے تو ہم کامیاب۔ اگر ہم یتیم کے سر پر دستِ شفقت رکھتے ہیں تو ہم کامیاب۔ اگر ہم ترازو پورا تولتے ہیں تو ہم کامیاب۔ اگر ہم رشوت لینا چھوڑ دیتے ہیں تو ہم کامیاب۔ اگر ہم غیبت چھوڑ دیتے ہیں تو ہم کامیاب۔ اگر ہم زنا اور قتل و غارت گری کو واقعی گناہِ کبیرہ سمجھ کرچھوڑ دیتے ہیں تو ہم کامیاب، ورنہ تا قیامت ۳۱ شہید اور ۳۸ زخمی ہوتے رہیں گے۔“اس اقتباس کو قارئین ذرا غور سے پڑھیں تو اس دیباچے کے آغاز میں مَیں نے جو عرض کیا تھا اس کی صداقت پر انہیں بھی یقین آ جائے گا کہ ایک کالم نگار جس کی بنیاد ہی عشقِ رسول ﷺ ہو، وہ یقیناً اپنے کالموں میں عوام الناس کو وہی پیغام دے گا جس کا اول و آخر قرآن و سنّت کی تعلیمات و ہدایات پر مشتمل ہو گا۔ مَیں شاہد جمیل منہاس کو اُن کے کالموں کے اس مجموعے کی اشاعت پر مبارک دینے کے ساتھ ساتھ ان کی درازیِ عمر، اور کالموں کے ذریعے معاشرے اور افراد کو سدھارنے کے نیک کام میں مزید کامرانیوں کی دُعا کرتا ہوں، کیونکہ انہوں نے اہم قومی و معاشرتی امور پر ”اپنی بات“ اس سلیقے اور قرینے سے قلم کی معجزہ بیانی سے لکھی ہے کہ یہ ”اپنی بات“ یعنی ہمارے پورے معاشرے کی بات بن گئی ہے۔چنانچہ اگر محاورتاً بھی یہ ک َہ دیا جائے کہ بات بن گئی ہے تو غلط نہ ہو گا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں