شام میں درندگی و سفاکیت

پروفیسر محمد حسین
شام میں 2011سے جاری درندگی و سفاکیت کے تناظر میں بارہا لگ بھگ پانچ درجن ممالک پر مشتمل عالم اسلام کا خیال آتا ہے مجاہدین سوشل میڈیا پرعالم اسلام کی بے حسی کی نشاندہی کرتے ہوئے مسلسل بڑی محنت اور لگن کے ساتھ اس کو بیدار کرنے میں مگن ہیں اور سینے میں دل رکھنے والا ہر مسلمان عالم اسلام کو بیداری اتحاد اور جرات کی تلقین کرتے ہوئے کہہ رہا ہے کہ شام کے عوام کو سفاک قاتلوں کے پنجے سے آزاد کرانا عالم اسلام کی اولین ذمہ داری ہے مظلوم شامی مائیں بہنیں اور بیٹیاں عالم اسلام کی طرف دیکھ رہی ہیں شاید وہ بیدار وہ کر ہم پر مظالم کے پہاڑ توڑنے والے درندوں کو روک دے اور شاہد عالم اسلام ہماری ہستیوں کی ملیا میٹ کرتے ہمیں لاشوں کے تحفے دینے والے سفاک قاتلوں کا حساب چکتا کر دے۔شام 2011سے مقتل بنا ہوا ہے اس خانہ جنگی میں تمام بیرونی قوتیں شامیوں کو استعمال کر رہی ہیں اپنے مفادات کی خاطر روس چین امریکہ اسرائیل ایران اور عرب ممالک بشاالااسد حز ب اللہ داعش القاعدہ اور اس کی ذیلی تنظیموں نے بارود کا ڈھیر بنا کر رکھ دیا ہے اور کسی مل نے اس خانہ جنگی کو رکوانے کی کوئی سبیل لگانے کی کوشش تک نہیں کی شام میں جاری کشیدگی کے باعث بشاالااسد ایران داعش اور دیگر مسلح ملیشیا کے ہاتھوں تین لاکھ افراد مارے جاچکے ہیں بیرون ملک ہجرت کرنیوالوں کی تعداد ایک ارب تک پہنچ چکی ہے شام کے شہر حلب میں سرکاری فوج وحشیانہ کاروائیوں کے دوران بچوں اور خواتین سمیت روزانہ پانچ سو سے زائد بیگناہ شہریوں کو موت کی نیند سلا رہی ہے اسدی فوج کے گماشقون نے گلیوں میں چلتے ہر انسان کو قتل کرنے کا سلسلہ شروع کیا ہوا ہے انسانی حقوق کے کارکنا ن کا کہنا ہے کہ حزب اللہ اور شامی فوج مل کر شہریوں کے اجتماعی قتل عام کے مرتکب ہو رہے ہیں حلب میں موجود مظلوم شامی باشندوں کی حالت ناقابل بیان ہے عورتوں کو اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنانے کے بعد قتل کیا جارہا ہے جس کے خوف سے بعض خواتین اپنی پاک دامنی کے سامنے اللہ کے حضور حاضر ہونے کے لیے خود سے ہی اپنی زندگی ختم کرنے کو ترجیح دے رہی ہیں حلب میں سرکاری فوجیں درندگی و سفاکیت کی جو تاریخ رقم کر رہی ہیں اسے دیکھ کر یوں محسوس ہوتا ہے کہ انسانیت کب مر چکی ہے اب دنیا بھر میں صرف بے ضمیر زندہ لاشوں کا ہجوم ہے جن کی زبانیں گنگ آنکھیں اندھی اور کان بہرے ہیں حلب میں انسان نما درندے نہتے لوگوں پر سفاکیت کا بدترین مظاہرہ کر کے انسانیت کے منہ پر جس زور سے طمانچے برسا رہے ہیں وہ پوری دنیا میں بسنے والے انسانوں کے لیے ڈوب مرنے کا مقام ہے مختلف ممالک کے گماشتے محصور و مجبو ر حلب کے باشندوں پر ظلم و ستم کا ہر طریقہ آزما رہے ہیں حلب سے آنیوالی ویڈیوز دیکھ کر کلیجہ منہ کو آتا ہے اور دل خون کے آنسو روتا ہے دہشتگردوں نے مظالم میں ہلاکو و چنگیز خان کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے نہ بچوں اور بزرگوں کے لاشے سلامت ہیں اور نہ خواتین کی عزت و آبرو محفوظ رہنے کا کوئی امکان ہے ہرطرف صرف درندگی و شیطانیت رقص کرتی دکھائی رہی ہے حلبی مظلومین و مقتولین معصوم بچوں خواتین و بزرگوں کی کٹی پھٹی لاشوں کی دل دہلا دینے والی تصاویر دماغ میں سے نکلتی ہی نہیں حلب میں آگ برساتے انسانوں میں انسانیت نام کی کوئی شے نہیں ہے انسانوں کی سی شکل و صورت ہونے کے باوجود یہ انسانیت سے بالکل محروم دکھائی دے رہے ہیں ورنہ طاقت کے نشے میں دھت ہو کت مجبور محصور انسانوں کے خون کی ندیاں بہا کر انسانیت کی یوں تذلیل نہ کرتے اگرچہ شام میں خون ریزی کیّ آگ بھڑکانے میں اہم کردار شیعہ سنی کی فرقہ وارانہ سوچ نے ادا کیا ہے مگر اب یہ لڑائی فرقہ واریت سے نکل کر ظالم اور مطلوم ،قاتل اور مقتول اور انسان اور درندوں کے درمیان تقسیم ہو چکی ہے ایک طرف گولا بارود ،طاقت اور ظلم ہے جبکہ دوسری طرف بے بس نہتے محصور اور مجبور شامی اپنی جان قربان کر رہے ہیں عالمی برادری کو اس سے سروکار نہیں کہ حلب میں کیا ہو رہا ہے بلکہ اس کی زبانیں گونگی آنکھیں اندھی اور کان بہرے ہو چکے ہیں اس قدر نقصان کے باوجود نہ تو بیرونی قوتیں اپنی پالیسی بدل رہی ہیں بلکہ وہ پوری طرح سڑاو اور حکومت کرو کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں اور نہ ہی مسلم ممالک نے اپنی آنکھیں کھولی ہیں بلکہ بعض مسلم ممالک بھی شام میں درندگی و سفاکیت کی آگ کو مزید بڑھانے کا کردار ادا کر رہے ہیں ان حالات مین سب سے افسوسناک پہلو یہ ہے کہ ساٹھ ممالک پر مشتمل آرگنائزیشن آف اسلامک کانفرنس کا ہے دنیا میں جہاں کہیں بھی مسلمانوں کا کوئی مسئلہ سامنے آتا ہے تو او آئی سی اسکے برعکس صرف ستائیس ممالک پر مشتمل یورپی یونین ہر موڑ پر اپنے ممالک کا مکمل ساتھ دیتی ہے اگرا سلامی ممالک کی نمائندہ تنظیم او آئی سی شاہے تو شام میں جاری درندگی رک سکتی ہے شام میں جاری سفاکیت اور قتل و غارت گری کو ختم کروانا اورامن کا قیام عالم اور او آئی سی کی ذمہ داری ہے لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ او آئی سی میں بعض طاقت ور مسلم ممالک خود حلب اور شام کو جلانے والوں میں شامل ہیں جن کے نزدیک سرف ان کے اپنے مفادات عزیز ہیں انہیں اس سے کوئی غرض نہیں کہ شام میں کتنے بیگناہ معصوم لوگ قتل ہو رہے ہیں لیکن ہم لوگ ان مسلم ممالک کے خلاف بھی نہیں بول سکتے کیوں کہ ہم میں سے ہر ایک کی تمام تر ہمدردیان صرف اسی ملک کے ساتھ ہیں جو ہمارے مسلک کے قریب تر ہے ۔

اپنا تبصرہ بھیجیں