
تحریر: حذیفہ اشرف
huzaifaashraf8340@gmail.com
پاکستان میں “سی ایس ایس ” ایک ایسا خواب بن چکا ہے جو لاکھوں نوجوانوں کو اپنی طرف کھینچتا ہے۔ والدین کے نزدیک یہ عزت، طاقت اور استحکام کی علامت ہے، مگر حقیقت میں یہ خواب اکثر ایک اذیت ناک تجربہ میں بدل جاتا ہے۔اس کا مقصد ذہین، باصلاحیت اور مخلص افراد کو ملک کی خدمت کا موقع دینا تھا، مگر آج یہ امتحان نفسیاتی دباؤ، غیر منصفانہ رویوں اور غیر ضروری سوالات کا مظہر بن چکا ہے۔امتحان کی پہلی خرابی اس کا غیر متوازن نصاب اور “رٹہ سسٹم” ہے۔ امیدوار مہینوں تک نوٹس یاد کرتے ہیں، مگر علم، منطق اور تجزیے کی صلاحیت کہیں گم ہو جاتی ہے۔دوسری بڑی خامی انٹرویو کا غیر پیشہ ورانہ طریقہ کار ہے۔میں نے خود محسوس کیا ہے کہ کچھ انٹرویو لینے والے اساتذہ کا رویہ بالکل غیر سنجیدہ اور متضاد ہوتا ہے۔کچھ کہتے ہیں کہ “کمرے میں آنے سے پہلے اجازت مانگو”، جبکہ کچھ کہتے ہیں “اجازت مانگنے کی ضرورت نہیں” — یعنی ہر امیدوار کے ساتھ الگ معیار رکھا جاتا ہے۔کوئی اصول، کوئی ایکساں ضابطہ نہیں۔انٹرویو کے دوران بعض اوقات تو امیدوار کو یوں محسوس کرایا جاتا ہے جیسے وہ کسی نوکری کے لیے نہیں بلکہ غلامی کی تربیت کے لیے آیا ہو۔انہیں ہدایت دی جاتی ہے کہ “ہاتھ زیادہ باہر نہ نکالو، ہاتھوں کو ایک جگہ پر رہے، کرسی پر سیدھا بیٹھو، ٹانگیں بالکل سیدھی رکھو، زیادہ مسکراؤ نہیں” — گویا غلامی کی پوری تصویر پہلے ہی بنا دی جاتی ہے۔پھر انٹرویوز میں ایسے ایسے غیر متعلقہ سوالات پوچھے جاتے ہیں جن کا تعلق نہ تو سول سروس سے ہوتا ہے، نہ عقل سے۔مثال کے طور پر ایک امیدوار سے پوچھا گیا بلوچستان کے فلاں ضلع کی آبادی کتنی ہے؟ اس کی سرحد کہاں تک جاتی ہے؟کیا سی ایس ایس کا امیدوار یہ بتانے آیا ہے کہ ضلع کی آبادی کتنی ہے؟یا یہ ثابت کرنے کہ وہ ملک کو سنجیدہ فیصلوں میں رہنمائی دے سکتا ہے؟کبھی پوچھ لیا جاتا ہے کہ “سنگاپور کی وزیراعظم کون ہے؟” یا “پچھلے پچاس سالوں میں فلاں ملک کے کتنے وزرائے اعظم بدل چکے ہیں؟”کیا ایک انسان سے یہ توقع رکھنا مناسب ہے کہ وہ پوری دنیا کی تاریخ، جغرافیہ، سیاست اور معیشت کے ہر پہلو کو زبانی یاد رکھے؟ایسے غیر سنجیدہ سوالات صرف اعتماد توڑنے کا سبب بنتے ہیں، علم ناپنے کا نہیں
۔بعض اوقات تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ انٹرویو شروع ہوتے ہی فیصلہ ہو چکا ہوتا ہے کہ “یہ امیدوار پاس ہوگا اور یہ فیل۔پھر سوال صرف ایک رسمی کارروائی بن جاتے ہیں۔یہ رویہ اس سوال کو جنم دیتا ہے کہ آیا یہاں واقعی میرٹ ہے یا کہیں پیچھے رابطے اور سفارش کا کھیل چل رہا ہے۔اصل مسئلہ یہ ہے کہ سی ایس اب ایک ذہنی جنگ بن چکا ہے۔جہاں علم سے زیادہ صبر، تعلقات، اور خوش قسمتی کی ضرورت پڑتی ہے۔ایک ایسا نظام جس کا مقصد ملک کے لیے بہترین دماغ چننا تھا، وہ اب ذہانت کو کچلنے اور حوصلہ توڑنے کا ذریعہ بن گیا ہے۔وقت آ گیا ہے کہ سی ایس ایس کے نظام کو ازسرِنو دیکھا جائے۔امتحان صرف یادداشت کا نہیں بلکہ سوچ، کردار اور اہلیت کا ہونا چاہیے۔یہ ملک ذہانت کا امتحان چاہتا ہے، ذہنی اذیت کا نہیں آخر میں یہی کہنا چاہوں کا کہ اگر معیار اچھا ہوتا تو ہمارا نظام میں بہتری نظر آتی