نامور بزرگ شاعر اور بابائے اٹک سعادت حسن آس نے کہا ہے کہ بدقسمتی سے ادبی حلقوں میں وہ احترام اور وقار اب باقی نہیں رہا جو صدیوں سے سینئر شعرا کو حاصل رہا ہے۔ آج نئے مصرہ گڑ شعرا نے اس روایت کو ختم کر دیا ہے۔ ماضی میں شاعروں کی ادبی خدمات کو دیکھا جاتا تھا جبکہ آج کل زیادہ تر ادبی تنظیموں میں عہدے اور مقام شاعر کی مالی حیثیت کو دیکھ کر بانٹے جا رہے ہیں۔




انہوں نے کہا کہ وہ نصف صدی سے شاعری کر رہے ہیں اور ان کے 14 سے زائد شعری مجموعے شائع ہو چکے ہیں مگر افسوس کہ نئے آنے والے شعرا انہیں مسلسل نظرانداز کر رہے ہیں۔ سعادت حسن آس نے شکوہ کرتے ہوئے کہا کہ “جس وقت ہم شعر و ادب کی ریاضت میں مصروف تھے، اس وقت آج کے یہ نوآموز شاعر تو ابھی ماں کی گود میں تھے، مگر آج وہ چند غزلیں لکھ کر خود کو بڑے شعرا میں شامل کر رہے ہیں۔”
انہوں نے کہا کہ آج کے نوجوان شاعر بہت جلدی میں ہیں اور راتوں رات شہرت کی بلندیوں کو چھونا چاہتے ہیں، حالانکہ شاعری ایک لمبی ریاضت اور مسلسل محنت کا تقاضا کرتی ہے۔ سعادت حسن آس نے مزید کہا کہ کل کے بچے دو چار غزلیں لکھ کر خود کو ادب کا “پردھان منتری” سمجھنے لگے ہیں، جو ادبی روایت اور شعری ارتقا کے ساتھ ناانصافی ہے۔