سیاستدانوں کا پاکستان

ہمارے آباؤاجداد نے حکیم الامت علامہ محمد اقبالؒ کے اس خواب کی تعبیر حاصل کرنے میں آنکھیں بند کر کے قائد اعظم محمد علی جناحؒ اور ان کے رفقاء کے ایک اشارہ ابرو پر اپنا تن من دھن وار دیا وہ اس خواب کی تعبیر پاکستان کی صورت میں سامنے آئی میں نے اپنا چودہ اگست والا کالم قائد اعظم اور حکیم الامت علامہ محمد اقبال کا پاکستان کے عنوان سے لکھا تھا جس میں ان کے خیالات و نظریات کا ذکر کیا تھا کہ وہ کیسا پاکستان چاہتے تھے اس کالم میں ہم موجودہ پاکستان کے حالات و واقعات کو مد نظر رکھتے ہوئے دیکھیں گے کہ ہمارے پیارے سیاست دان کس قسم کا پاکستان چاہتے ہیں کیونکہ پچھتر سال بیت گے لیکن ہم آگے بڑھنے کی بجائے پیچھے جارہے ہیں ترقی کے بجائے تنزلی کی طرف جارہے ہیں تھوڑے سے تغیر کے ساتھ ھمارے سیاست دانوں کی اکثریت ان ہی خاندانوں کی ہے جو انگریز دور میں بھی صاحب جاہ و منصب رہے ان میں تقریباً سارے جاگیر دار ہیں اور اب کچھ سرمایہ دار شامل ہو گئے ہیں ان سب کی سوچ یہی ہے کہ حکومت کا حق صرف اور صرف ان ہی کا ہے کسی غریب کو وہ اپنے مقابل بیٹھا پسند نہیں کرتے اس لیے انہوں نے انتخابی نظام کو ہی اتنا مہنگا بنا رکھا ہے کہ کوئی غریب انتخاب میں حصہ لینے کے بارے میں سوچے بھی نہ کیونکہ انتخاب نام ہے کروڑوں روپے انویسٹ کرنے کا وہ کروڑوں روپے کہاں سے لائے اس کے گھر کی روٹی ہی پوری نہیں ہوتی وہ انتخاب کا کیسے سوچے گا اگر کوئی غریب جمشید دستی جیسا خوش قسمتی سے منتخب ہو کر اسمبلی تک پہنچ جائے تو وہ اسے اس قابل نہیں چھوڑتے کہ دوبارہ وہ منتخب ہو سکے اس لیے پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے بعد سے آج تک دیکھیں وہی مخصوص لوگ اور خاندان اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھے ہوئے ہیں صرف وقت کے ساتھ نام اور چہرے بدل جاتے ہیں آج ان کی تیسری نسل اسمبلیوں میں پہنچ چکی ہے اور غریب روٹی کے ایک نوالے کو ترس رہا ہے بلدیاتی انتخابات میں جہاں غریب کو کچھ اختیارات ملتے ہیں انہیں یہ چیز بھی آنکھوں نہیں بھاتی اس لیے وہ یہ منعقد ہی نہیں کرتے پورے پچھتر سالوں میں غالبا پانچ سے چھ مرتبہ بلدیاتی انتخابات منعقد ہوئے اور صرف ایک دفعہ 2002 میں پوری ایمانداری کے ساتھ بلدیاتی نمائندوں کو اختیارات بھی دیے گئے اور استعمال بھی کرنے دیے گئے یہ بلدیاتی انتخابات کیوں نہیں منعقد کراتے اس لیے کہ غریبوں کے بہت سارے مسائل ان کی مداخلت اور منت سماجت کے بغیر حل ہو جاتے ہیں اس طرح ان کی چودھراہٹ ختم ہو جاتی ہے دوسری چیز جس کے بارے میں ہمارے سیاست دان بڑے فکر مند رہتے ہیں کہ کہیں ہماری رعایا کی اولاد پڑھ لکھ نہ جائے اس لیے انہوں نے ایسی تعلیمی پالیسی کو فرو غ دیا ہے جس سے تعلیمی عدم مساوات بھی اپنی جگہ برقرار رہے اور جس سے معاشرے میں سماجی و معاشی عدم استحکام بھی پیدا ہو اس ضمن میں سب سے بڑا المیہ تو یہ دیکھنے میں آیا کہ حکمرانوں اور امراء کے بچوں کیلئے تو مغربی طرز کے سکول اور مسلح افواج کے بچوں کیلئے مراعاتی سکول فراہم کیے گئے جن کو مراعات یافتہ بنانے کیلئے ہر ممکن امداد بھی مہیا کی جاتی ہے جبکہ پاکستان کے عام عوام کے بچے سرکاری سکولوں میں تعلیم کے نام پر سرابوں کے پیچھے بھاگتے رہتے ہیں کیونکہ جس نصاب کو ہمارے بچے پڑھتے ہیں ان سے اکثر وبیشتر کلرک ہی پیدا ہو سکتے ہیں کیونکہ اس نظام میں نالج نہیں ہے جبکہ دوسری طرف حکمرانوں اور امراء کے بچے انگریزی میں جدید ترین تعلیم سے لیس ہوکر حکمرانی کیلئے تیار ہوکر نکل رہے ہیں اسی طرح
ان کی منشاء ہے کہ غرباء کو انصاف جلد اور سستا نہ مل سکے اس کے لیے انہوں نے امراء کے لیے الگ نظام انصاف اور غرباء کے لیے الگ نظام انصاف بنا رکھا ہے غریب کا مقدمہ سالہ سال چلتا ہے اکثر اوقات دادا کے مقدمہ کا فیصلہ پوتا سنتا ہے جبکہ امراء کے مقدمات دنوں میں نمٹا دیے جاتے ہیں اور غریب کے ساتھ سختی سے نمٹا جاتا ہے جبکہ امراء کو ریلیف دیا جاتا ہے یہ فرق حالات حاضرہ کے دو کیسوں میں روز روشن کی طرح واضح ہو جاتا ہے شہباز گل صاحب نے ایک متنازع بیان دیا جس پر ان پر کیس فائل ہوا اور گرفتار کر لیا گیا بات ختم کیونکہ ملزم کو حراست میں لے لیا گیا ہے لیکن ان کے موبائل کا بہانہ بنا کر ان کے ڈرائیور کو گرفتار کرنے کے لیے چھاپا مارا گیا وہ نہ ملا تو اس کی بیوی کو اٹھا لیا گیا اس کی دس مہینے کی بچی ماں کے بغیر چیختی چلاتی رہی کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگی بیوی بھی اس شخص کی قید کر دی گئی جس کا کوئی جرم ہی نہیں اور نہ وہ کسی جھوٹے مقدمہ میں بھی مطلوب ہے دوسری طرف تیرہ ایم پی ایز پر پنجاب اسمبلی میں ہنگامہ آرائی مار کٹائی کا مقدمہ درج ہوا ان کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارے گے وہ نہیں ملے تو کسی نے ان کی بیوی بچوں کو ہاتھ تک نہیں لگایا کیونکہ وہ قانون بناتے ہیں اور ڈرائیور کی بیوی کو اس لیے اٹھا لیا کیونکہ قانون ان جیسوں کے لیے بنتا ہے ہماری سیاسی اشرافیہ ایسا ہی نظام قانون بھی چاہتے ہیں جب جی چاہے غریب کو دبوچ لیں اسی طرح نظام معیشت کا بھی گورکھ دھندہ مرتب کیا گیا ہے جس سے امیر امیر تر اور غریب غریب تر ہوتا جارہا ہے کیونکہ اس نظام میں پیسہ سکڑتا ہے یعنی پیسہ زیادہ لوگوں کے ہاتھوں سے نکل کر تھوڑے لوگوں کے ہاتھوں میں چلا جاتا ہے جبکہ اسلامی نظام معیشت میں پیسہ امراء کے ہاتھوں سے نکل کر غرباء کے ہاتھوں میں آتا ہے اس سے غربت کا خاتمہ ہوتا ہے یہ راستہ فلاحی ریاست کی طرف جاتا ہے اس طرح علاج معالجہ روٹی کپڑا مکان تمام معاملات کو انہوں نے الجھا کر رکھا ہوا ہے نعرے ہر الیکشن میں مارتے ہیں عوام کو سبز باغ دکھاتے ہیں ہر پارٹی کا ایک مخصوص نعرہ ہے لیکن وہ اس نعرے کو کبھی پورا نہیں کریں گے کیونکہ انہیں پتہ ہے جس دن ان کو روٹی کپڑا مکان مل گیا اس دن ہماری خیر نہیں اس لیے ان کی کوشش ہے نہ روٹی نہ کپڑا نہ مکان نہ عدل و انصاف نہ مساوات نہ آزادی نہ تعلیم نہ شعور نہ علاج بلکہ غربت افلاس سے بھر پور جھالت سے الٹا مجبور و مقہور پاکستان یہ ہے ہمارے سیاست دانوں کا پاکستان۔

اپنا تبصرہ بھیجیں