حکومت کے ایک عام فیصلے نے کئی گھروں میں خوشی کی لہر دوڑا دی۔ اس خوشی کا تعلق ان سے ہے جو لوگ بچوں کو تعلیم چھڑوا کر گھر کے کام کاج میں لگانا چاہتے تھے۔ حقیقی خوشی تو ان والدین کیلئے تھی جو کہ تعلیم کو غیر ضروری سمجھتے ہوئے لڑکوں کو مزدوری پہ لگانا چاہتے تھے۔ کیونکہ قلم اٹھانے والے ننھے ہاتھ اب درانتی اٹھایا کریں گے۔یہ حال احوال ہے یونین کونسل ساہنگ میں رہنے والے ان لوگوں کا جن کے دل میں اولاد کو تعلیم دلوانے کی خواہش تو تھی مگر جیب اجازت نہ دیتی تھی۔ ایسے لوگوں کیلئیسرکاری سکول کسی نعمت سے کم نہ تھے کیونکہ وہاں پہ فیس برائے نام لی جاتی تھی یہ وہ لوگ ہیں جو کہ بچے کا گھر سے سکول جانے کا خرچہ بھی بہت مشکل سے برداشت کرتے تھے۔ بچوں کو تعلیم دلانے کی یہ ننھی سی خواہش حکومت کے دل پر گراں گزری اور حکومت نے ان سکولوں کو پرائیویٹائز کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس ظلم کا حقیقی نشانہ گاؤں اور قصبوں کے وہ لوگ بنے جو بچے کے سکول جانے کے 20 روپے خرچے یا کاپی کے 20 روپے کا بندوبست مشکل سے کیا کرتے تھے اب انہیں ماہانہ دو ہزار روپے کا بندوبست کرنا ہوگا۔ یہ دو ہزار روپے محض فیس نہیں بلکہ ذہنوں میں اٹھنے والے کئی دو ہزار سوالات ہیں۔کیا متاثر ہونے والے بچوں کی حکومت کی نظر میں کوئی اہمیت نہیں؟کیا یہی دو ہزار ڈوبتی معیشت کو بچا سکتا ہے؟سالانہ مختص ہونے والے تعلیمی بجٹ میں غریب کے بچے کیلئے 2 ہزار ماہانہ بھی نہیں؟ تعلیم کی کمی کی وجہ سے مستقبل میں آنے والے دو ہزار مسائل کا حل کس کے پاس ہے؟ان سب اور اس جیسے سینکڑوں اور سوالوں کا جواب شاید کسی ادارے کے پاس موجود نہیں وجہ صرف یہ ہے کہ جب سے پاکستان وجود میں آیا کبھی تعلیم کو اہمیت دی ہی نہیں گئی نہ ہی حکم الہی سمجھ کر اور نہ ہی دور حاضر کی ضرورت سمجھ کر۔ یہی وجہ ہے کہ عوام پسماندہ تھی اور انے والے کل میں بھی پسماندہ رہے گی۔ پڑوسی ملک چاند پر قدم رکھ رہا ہے اور ہمارا ملک جس نے صرف دشمن کے بچوں کو پڑھانے کا ٹھیکہ اٹھا رکھا ہے اس کے بچے مستقبل میں سکول میں قدم رکھنے کے بھی اہل نہ رہیں گے۔ ایک دیہاڑی دار مزدور جس کے ماہانہ آمدن دس سے پندرا ہزار ہو اور بچوں کی تعداد تین ہو ذرا سوچیے وہ ماہانہ6 ہزار سکول میں دینے کے بعد ان بچوں کے سر پر چھت اور پیٹ بھرنے کا بندوبست کیسے کرے گا۔ نتیجہ یہ ہوگا سر پہ چھت ہوگا پیٹ بھرا ہوگا لیکن آنے والی نسل عقل و شعور اور تعلیم سے محروم رہ جائے گی۔ ہر دور میں غریب کی جیب اور ایمان کو آزمایا گیا ہے کبھی آٹا مہنگا کر کے کبھی بجلی کے بل کی صورت میں عذاب برپا کر کے ان دونوں آزمائشوں میں سے تو غریب جیسے تیسے گزر گیا لیکن اس آزمائش میں ہار جائے گا۔ ملک و قوم کے سینکڑوں بچے اب سکول کے اوقات میں گلی میں گیند بلا اور چھپن چھپائی کھیلا کریں گے۔ گلی محلے کی تربیت کے بعد یہ بچے عارفہ کریم اور ڈاکٹر عبدالقدیر خان نہیں بنیں گے بلکہ چور ڈکیت بنیں گے۔ عوام الناس خصوصا ہردو چیڑھ کے پسماندہ لوگوں کی حکومت سے درخواست ہے کہ برائے مہربانی زبردستی لاگو ہونے والی یہ ماہانہ دو ہزار فیس کا فیصلہ واپس لیا جائے۔ کیونکہ یہ فیصلہ ٓانے والے مستقبل میں نجی سماجی معاشی اور معاشرتی زندگی میں بہت برے اثرات مرتب کرے گا۔ مہنگے آٹے مہنگی بجلی کے بعد اب مہنگی تعلیم باخدا بہت بڑا ظلم ہے ہماری جیبیں یہ ساعت نہیں رکھتی کہ ہم یہ بوجھ اٹھا سکیں۔ حاکم وقت یہ ہرگز مت بھولے کہ فرعون ہر دور میں آتا ہے اور ہر دور میں اسے آنے والی نسلوں کے لیے نشان عبرت بنا دیا جاتا ہے۔ غریب کی آہ آسمانوں کو چھوتی ہے تو ابر رحمت برستا ہے۔ ہماری گزارش ہے کہ حکومت ایسے مظالم سے استغفار کرتے ہوئے اللہ کی رحمت کے مستحق ٹھہرے۔ ہم اپنے نجی مسائل کے علاوہ حکومتی مسائل کے حل ہونے کے بھی دعا گو ہیں۔