242

سکولوں کی بندش،غریب طلبہ کے والدین نے سر پکڑ لیے

اسامہ منظور/کورونا وائرس کی دوسری لہر شدت اختیار کرتی جا رہی ہے۔ اسی وباء کے پیش نظر ملک بھر کے تعلیمی ادارے 26 نومبر کو ڈیڑھ ماہ کے لیے بند کر دئیے گئے اور آن لائن کلاسز کا سسٹم شروع کروا دیا گیا۔ آن لائن کلاسز کے آغاز کے ساتھ ہی والدین کی مشکلات اور اخراجات میں اضافہ ہو چکا ہے اگر ایک گھر میں تین بچے زیر تعلیم ہیں تو تینوں بچوں کو اپنی اپنی کلاس میں آن لائن شامل ہونے کے لیے تین الگ الگ موبائل درکار ہوں گے۔ اس وقت ایک موبائل کی قیمت جو آن لائن کلاس بہتر انداز میں چلا سکے دس ہزار کم سے کم ملے گا۔ پھر موبائل میں سم کارڈ اور پھر آن لائن آنے کے لیے انٹرنیٹ کنیکشن کی ضرورت پڑے گی۔ اگر گھر میں لینڈ لائن انٹرنیٹ کنیکشن لگایا جائے تو مہنگائی کے اس دور میں بجلی کا بل جمع کرانا مشکل ہے تو لینڈ لائن کا کیسے آسانی سے جمع کروایا جا سکے گا۔ اگر نیٹ ورک کا استعمال کیا جائے تو مہینے میں 1200 سے 1500 تک کے پیکج میں ہی ایک بچہ پورا ماہ اپنی کلاس لے سکے گا۔ تو تین بچوں کے اخراجات کا اندازہ آپ خود لگا لیں۔ یہ تو صرف آن لائن کلاس کے اخراجات ایک ماہ کے دو ہزار کے قریب ہیں اس کے علاوہ بچوں کی ٹیوشن فیس، ان کی کاپیاں، کتابیں، اور سٹیشنری کا سامان بھی آپ اندازہ لگا لیں کے اس مشکل دور میں ان کے اخراجات کہاں جائیں گے۔ ابھی تو ماہ دسمبر کا آغاز ہوا ہی تھا کہ سکول کی جانب سے بچوں کے فیس چالان اور والدین کو فیس جمع جلدی سے کروانے کی کالز موصول ہونا شروع ہو چکی ہیں۔ اب والدین پر سکول فیس کے ساتھ ساتھ آن لائن کلاسز کا بوجھ بھی پڑ چکا ہے تو ایک مزدور طبقے کا شخص کیسے اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلوانے کا خواب پورا کرے گا۔ اگر ایک بچے کے ایک ماہ کے تعلیمی اخراجات ہی صرف دس ہزار کے قریب ہو جائیں گے تو پندرہ یا بیس ہزار مہینہ کمانے والا شخص دو یا تین بچوں کے تعلیمی اخراجات کیسے پورے کرے گا۔ اگر تعلیم دلوائے گا تو پھر گھر کا چولہا کیسے جلے گا؟ اور اگر گھر کا چولہا جلے گا تو پھر بچوں کو تعلیم کیسے ملے گی؟پاکستان حکومت نے کورونا وائرس کے خلاف جنگ میں تو نمایاں کامیابیاں حاصل کی اور اب کا اعتراف دنیا میں بھی ہو چکا ہے لیکن اسی پاکستان میں ایک غریب کے گھر کا چولہا جلنا بند ہو چکا ہے، اس کے بچے تعلیم حاصل کرنے میں مشکلات کا شکار ہیں ان کا اعتراف کون کرے گا؟ ملک بھر میں سیاسی اجتماعات حکومت اور اپوزیشن ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے زور و شور سے جلسے کر رہے ہیں بازاروں میں کہیں ایس او پیز پر عمل درآمد نظر نہیں آ رہا وہی تعلیمی اداروں کو اس وباء کے خوف سے بند کر کے والدین پر اخراجات کا بوجھ ڈالنا کہاں کا انصاف ہے۔ اگر ملک میں سیاسی اجتماعات ہو سکتے ہیں تو ایس او پیز کے ساتھ بچوں کی تعلیم بھی جاری رہ سکتی ہے۔ حکومت وقت کو چاہیے کہ تعلیمی اداروں کو اگر بند کر رہیں ہیں تو بچوں کا آن لائن کلاسز کے لیے سہولیات میسر کرے یا پھر تعلیمی ادارے ایس او پیز کے ساتھ کھولنے کی اجازت دے اور تعلیمی اداروں میں ایس او پیز پر عمل درآمد یقینی بنائے تا کہ کوئی غریب اپنے بچوں کو تعلیم نہ دلوا سکنے کے ڈر سے یا گھر کہ اخراجات نہ پورے ہونے پر خودکشی نہ کر سکے۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں