زندہ والدین یتیم بچے

عبدالجبار چوہدری
کچھ بچوں کا ناگزیر وجوہات اور مسدود حالات کی وجہ سے بچپن ‘لڑکپن اپنے اپنے نانا،نانی کے ہاں گزرتا ہے یااپنے چچا‘خالہ‘پھوپھی یا ماموں کی زیر کفالت رہنا پڑتا ہے یہ بہت مشکل وقت ہوتا ہے بعض بچوں کو ان حالات کا شکار ان کے والدین کا اس دنیا سے چلے جانے کی وجہ سے ہونا پڑتا ہے اور بعض کو والدین کے درمیان جھگڑے کی وجہ سے یہ دکھ سہنا پڑتا ہے بلاشبہ ان رشتوں کا بے پناہ محبتیں نچھاور کرنا اچھنبے کی بات نہیں مگر اس کے باوجود ایک وقت ایسا آتا ہے جب انہیں کہا جاتا ہے کہ جاؤ اپنے وارثوں کے پاس اور ان سے اپنا حصہ طلب کرو کسی بچے کو یہ کہا جاتا ہے بالآخر اس نے تو اپنوں میں ہی لوٹ جانا ہے یہ طعنہ بہت تکلیف دہ ہوتا ہے ایسی صورتحال کا سامنا جس کو ہوتا ہے وہی دکھ اور تکلیف کو بخوبی جانتا ہے ایسے زیر کفالت بچوں کا کسی عادت ‘حرکت کا بر امنائے جانے کی صورت میں ان کو دادا،دادی کے خاندان کا حوالہ دیا جاتا ہے کہ یہ تو اس کے خون میں شامل ہے جوانی کی دہلیز پہ قدم رکھتے ہی نت نئے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے بعض اوقات شادی اور اولاد ہونے کے باوجود ہجرت مقدر ٹھہرتی ہے پرائی اولاد کا طعنہ تمام عمر پیچھا کرتا ہے میاں بیوی کے درمیان لڑائی جھگڑے کی صورت میں بچے کے مستقبل کا سوال اٹھتا ہے توفریقین کہتے ہیں کہ ہمارے ہاں رزق بہت ہے دو وقت کی روٹی کھاتے رہیں گے ایک دفعہ کسی بزرگ نے مجھے ایک بات کہی تھی کہ جب ایک گز کپڑے کا لگتا ہے تو سارے رشتہ دار ہوتے ہیں جس وقت چھ گز کپڑا درکار ہوتا ہے تو پھر کوئی رشتہ دار نہیں بنتا یعنی جب بچے کی ضروریا ت کم ہوتی ہیں تو کفالت کے دعویدار بھی بہت ہوتے ہیں اوروہی بچے جوان ہوتے ہیں تو ان کی ضرورتیں بڑھ جاتی ہیں کھانے پینے کے علاوہ رہنے کے لیے مکان ‘زمین اور معاشی ضروریا ت کے لیے دولت کی ضرورت ہوتی ہے تو پھر وہ بوجھ لگنا شروع ہوجاتے ہیں بات بات پر روک ٹوک شروع ہوجاتی ہے حالات کی تبدیلی کا تقاضا ہے کہ اس طرح کا قدم اٹھانے سے پہلے سو بار سوچا جائے کیونکہ مستقبل میں انسانی جانوں کے ضیاع کا سبب بعض اوقات یہی فیصلے بنتے ہیں جن خواتین کو ایسے حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے وہ حتمی نتیجہ کے طور پر اپنی اولاد کی قربانی دے دیتی ہیں بچوں کو والد کے حوالے کر کے خود بے وفائی ‘تنہائی کے بھاری پتھر کو تمام عمر سینے سے لگائے رکھتی ہے بہت سی خواتین خاوند کی وفات یا چھوڑ جانے کی صورت میں صرف اس لیے دوسری شادی نہیں کرتی یا گھر نہیں چھوڑتی کہ ان کی اولاد رل جائے گی اپنی خواہشات ‘خوشیوں کو قربان کر کے اولاد کی پرورش کرتی ہیں ایسی مائیں بے حدستائش کے قابل ہوتی ہیں خانگی حالات کو بگڑنے سے بچانا ہماری بنیادی ذمہ داریوں میں شامل ہے بدقسمتی کے ہمارے معاشرے میں اس فساد کے اندر حصہ ڈالنا بھائی‘بہن ‘ماں ،باپ‘ماموں تمام دور نزدیک کے رشتہ دار ضروری خیال کرتے ہیں اور تختہ مشق ایک ماں اور اس کے بچے بنتے ہیں بالفرض ایک لمحے کے لیے یہ تصور کر لیتے ہیں کہ بہو تو پرائی ’’دھی‘‘بیٹی ہوتی ہے ظالمو اس کی اولاد تو تمہار اخون ہے اس کا خیال کرتے ہوئے ہی اس پرظلم اور زیادتی سے باز آجاؤہم اس قدر بے حس ہوچکے ہیں کہ انسان پر رحم کرنا ہماری روز مرہ زندگی سے بے دخل ہوتا جارہا ہے ایسے شاد ی شدہ افراد (جوڑے) جو کسی وجہ سے آپس میں مثالی تعلقا ت نہ رکھتے ہوں ان کی اس کمزوری کا خاندان کے دیگر افراد نا جائز فائدہ اٹھاتے ہوئے ان کے تعلقات کو مزید خراب نہ بنائیں بلکہ حکمت‘تدبر اور ہمدردی کے ذریعے ان کو بہتر زندگی گزارنے کی طرف رہنمائی کریں بلاشبہ یہ بھی بہت بڑی انسانی خدمت ہے خصوصا ان جوڑوں کی زندگی کو تباہ و برباد کرنے والے عوامل کاسد باب انتہائی ضروری ہے جن کی اولاد ہو ایسے خاندان کے بکھرنے کی صورت میں بچوں کے مستقبل پر سوالیہ نشان لگ جاتا ہے کبھی وہ نانی نانا کے ہاں رلتے ہیں کبھی دادا دادی کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں اور ان کی کیفیت ایک پردیسی کی سی ہوتی ہے مسافر کی طرح ہوجاتے ہیں
شالا کوئی مسافر نہ تھیوے
ککھ جہناں تو بھارے ہو
بچے کا پل بڑھ کا جوان ہوجانابڑی بات نہیں ہے مثالی ماحول میں پرورش پانا بہترین سہولیات کا بچپن میں ملنا یہ بڑی بات ہے کھانا تو ہرآدمی کھاتا ہے بغیر ماں باپ کے بھی بچے پلتے ہیں مگر ان کی جو محرومیاں رہ جاتی ہیں ان کا ازالہ ممکن نہیں ہوتا ہم پاکستانی معاشرے میں رہنے والے جذباتی استیصال یعنی جذبات کو ٹھیس پہنچانے کو کوئی گناہ تصورنہیں کرتے ایک دوسرے کے خاندان ‘ذات پر طعنہ زنی کرنا ‘ کسی کو گھٹیا قرار دینے کے لیے دلیلیں دینا اور مذاق اڑانا کپڑوں‘وضع قطع اور سب سے بڑھ کر اس کے گھریلو حالات اور اس پر گزرے مصائب کو صرف اور صرف اس کی ذات اور انفرادی خامی قرار دینا تو روزہ مرہ کا معمول بن چکا ہے مجھے یہ لکھنے میں کوئی تامل نہیں کہ ہم بہت ہی لاپرواہ اور انسانی جذبات کو ملیا میٹ کرنے والی قوم ہیں کسی کے پراگندہ بالوں‘ نحیف نزار جسم کا مذاق اڑانے میں ذرہ دیر نہیں کرتے مگر اس کی حالت کا پتا چلانے کی بھی کوشش نہیں کرتے کہ اس کو یہاں تک کس نے پہنچایا ہے زبانی جمع تفریق کرنے والی اگر کوئی قوم یا لوگ ہیں تو وہ پاکستانی ہیں الاماشاء اللہ
نمازی‘حاجی ‘تاجر‘سرمایہ دار‘ جج‘وکیل اور سیاستدان کوئی بھی اس سے مبرا نہیں اکثر مسائل ہماری اس ذہنی حالت کی وجہ سے ہیں انہی عادات کی وجہ سے ہمیں دوسروں سے نقصان کا اندیشہ رہتا ہے ایک دوسرے کے بارے میں بدگمانی کا شکار رہتے ہیں مصنوعی میل جول رکھتے ہیں منہ پر مسکراتے ہیں پیٹھ پیچھے غراتے ہیں اور نفرت کا اظہار رکرتے ہیں جھوٹی قسمیں کھا کر وفا داری کا یقین دلاتے ہیں ہماری مصیبتوں اور دکھوں کی ہماری معاشی ضروریات کم ذمہ دارہیں معاشرتی اور ذاتی برائیاں زیادہ ذمہ دار ہیں{jcomments on}

اپنا تبصرہ بھیجیں