راولپنڈی میں غیرت کے نام پر بے دردی سے قتل ہونے والی سدرہ کی قبر کشائی عدالت کے حکم پر آج کی جا رہی ہے۔

راولپنڈی(اویس الحق سے)غیرت کے نام پر 17 سالہ سدرہ کے قتل کیس میں عدالت نے مقتولہ کی قبر کشائی کا حکم جاری کر دیا تھا۔سول جج قمر عباس تارڑ کے حکم پر قبر کشائی آج کی جائیگی۔ہولی فیملی اسپتال کا میڈیکل بورڈ اور مجسٹریٹ بھی موجود ہونگے۔میونسپل کارپوریشن کا عملہ قبر کشائی کرے گا،گرفتار 3 ملزمان کا 3 دن کا جسمانی ریمانڈ بھی منظور کرلیا گیا۔ملزمان راشد گورکن سیکریٹری قبرستان سیف الرحمان، رکشہ ڈرائیور خیال محمد کو 29 جولائی پیش کیا جائیگا۔مقدمہ میں مجموعی طور پر 32 ملزمان نامزد ہیں۔جرگہ کے تمام ممبران بھی ملزم نامزد کر دئیے گئے ہیں۔مقتولہ کا والد، سسر، بھائی والدہ بہن دو چچیاں بھی ملزمان کی فہرست میں شامل ہیں۔عدالت میں پیش رپورٹ کے مطابق مقتولہ کی جنوری 2025 میں شادی کے 4 ماہ بعد زبانی طلاق ہوئی،طلاق کے بعد مقتولہ نے عثمان سے دوسری شادی کی۔مقتولہ سے دوسری شادی کرنے والا عثمان بھی گرفتار ہے، رپورٹ کے مطابق بغیر کفن و جنازہ کے گڑھا کھود کر دفنایا گیا،جرگے کا چیئرمین سابق یونین کونسلر بھی گرفتار کر لیا گیا ہے۔آج قبر کشائی کے بعد میڈیکل بورڈ ہوگا، ڈاکٹرز وجہ قتل کی رپورٹ جلد از جلد دینگے، مقتولہ کے جسم کے اعضا فرانزک لیب ٹیسٹ کیلئے لاہور بھیجے جائیں گے۔ایسے میںرکشہ ڈرائیور خیال محمد اور گورکن راشد محمود نے بھی بغیر جنازہ،بغیر قبر بنائے زمین برابر کرنے کا اعتراف کرلیا۔وزیر اعلی پنجاب مریم نواز نے غیرت کے نام پر اس قتل کی رپورٹ طلب کر لی، تھانہ ذرائع نے کہا کہ تفتیشی ٹیم نے جرم کو درست قرار دیتے ہوئے آئی جی پنجاب کو رپورٹ بھیج دی۔تفتیشی رپورٹ کے مطابق ملزمان نے پہلے سر پر تکیہ رکھ رکھا، پھر چند سانس باقی تھے گلا دبایا۔عدالت نے ریمارکس دیے کہ گورکن کا کام قبر چھپانا نہیں بنتا،رکشہ میں دو گھنٹے ڈیڈ باڈی کیوں رکھی گئی؟پھر مٹی ڈال کر قبر برابر کر دی گئی۔مقدمہ میں قتل، لاش کی بے حرمتی، قتل شواہد چھپانے کی سنگین دفعات بھی شامل ایسے میں تفتیشی آفیسر نے کہا کہ پوسٹ مارٹم، فرانزک لیب ٹیسٹ سے کیس واضح ہو جائے گا، عدالت نے قبر کشائی مکمل کرکے رپورٹ دینے کا حکم دیدیا۔مقتولہ سدرہ کا خاندان 45 سال قبل 1980 میں مہمند ایجنسی سے فوجی کالونی پیرودھائی راولپنڈی آباد ہوا، مقتولہ کا والد عرب گل، والدہ بفر بی بی، بہن نائلہ بی بی، بھائی ظفر شامل ہیں۔سدرہ قتل کیس میں گرفتار گورکن، سیکرٹری قبرستان، رکشہ ڈرائیور کا قتل کیس کے تحت بھی جسمانی ریمانڈ لینے کا فیصلہ کرلیا گیا۔سنگین جرم کے بعد ملزمان نے چالاکی کا مظاہرہ کرتے ہوئے معاملہ الجھانے کے لیے سدرہ کے اغوا کا مقدمہ بھی درج کرادیا لیکن چالاکی ان کا جرم نہ چھپاسکی اور پولیس تحقیقات نے سب کچھ کھول کررکھ دیا۔پولیسں تفتیش سے جڑے ذرائع کے مطابق ضیا الرحمان کی اہلیہ مسماتہ سدرہ خاوند سے ناچاقی پر 11 جولائی کو گھر سے لاپتا ہوئی،باڑہ مارکیٹ کے تاجر رہنما عصمت اللہ اور سدرہ کا والد عرب گل و خاوند ضیا الرحمن سب آپس میں رشتہ دار ہیں۔سدرہ گھر سے غائب ہوئی تو خاوند و والدین کو اس کے عثمان نامی لڑکے سے مبینہ تعلق کا پتا چلا جس پر تمام افراد اسی علاقے میں عثمان کے گھر گئے لیکن وہ موجود نہ تھا نہ ہی سدرہ ملی۔16 جولائی کی شب عصمت اللہ، سدرہ کا والد اور بھائی وغیرہ مظفر آباد گئے جہاں سدرہ کی موجودگی کا پتا چلا، انہوں نے جرگہ کیا اور منت سماجت کرکے سدرہ کو واپس راولپنڈی لے آئے۔17 جولائی کی صبح 4 بجے عصمت اللّٰہ کی سربراہی میں جرگے نے حکم سنایا کہ گھر سے نکل کر سدرہ جینے کا حق کھو چکی ہے جس پر چچا سسر، والد اور بھائی وغیرہ اسے کمرے میں لے گئے گلا گھونٹ کر مبینہ طور پر قتل کردیا یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ اس قتل کے دوران گھر کی خواتین سمیت سدرہ کی والدہ نے بھی مرکزی کردار ادا کیا۔گھر میں بے دردی کے قتل کرنے کے بعد قبرستان کمیٹی کے ممبر و گورکن کی ملی بھگت سے سدرہ کو خاموشی سے دفنا کر قبر کے نشانات تک مٹا ڈالے گئے۔سنگین جرم کے بعد ملزمان نے چالاکی کا مظاہرہ کرتے ہوئے معاملہ الجھانے کے لیے سدرہ کے اغوا کا مقدمہ بھی درج کرادیا۔اس دوران پولیس کو مشکوک سرگرمی کی اطلاع ملی تو پولیس نے تحقیقات شروع کردی جس کے خوف سے 20 جولائی کو عصمت اللہ، اس کے بھائی اور سدرہ کے خاوند نے چالاکی دیکھانے کی کوشش کرتے ہویے معاملہ مزید الجھانے کے لیے سی پی او راولپنڈی کو سدرہ کے اغوا و عثمان سے نکاح کرنے کی درخواست دے ڈالی۔ملزمان نے ساتھ ہی عدالت میں 22 اے کی درخواست بھی دی کہ پولیس مقدمہ درج نہیں کررہی،راولپنڈی پولیس جو پہلے ہی تحقیقات میں مصروف تھی جبکہ سی پی او اور عدالت میں درخواست دینے پر مزید الرٹ ہوگی۔پولیسں نے قبرستانوں میں تازہ قبروں اور ان کے ریکارڈ کو چیک کرنا شروع کیا، پولیس نے گورکن ارشاد اور قبرستان کمیٹی کے ممبر کو موقع پر ہی گرفتار کرلیا تو کیس کی تمام کڑیاں کھلتی چلی گئیں۔پولیس نے سدرہ کے سسرال اور والدین کے گھر کے افراد کو تحویل میں لیتے ہوئے مزید تفتیش شروع کر دی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں