(اب یہ تیری مرضی مولا کب تک جلتا ہے) آج میں جس ہستی پر لکھ رہا ہوں وہ میرے مرحوم والد گرامی ہیں۔ میں جب بارہویں جماعت میں تھا تو میرے والد گرامی فوجی فاؤنڈیشن ہسپتال میں زیر علاج تھے اور پھر یہ فانی دنیا چھوڑ گئے۔ ہم سب بہن بھائی اپنے بابا سے بہت پیار کرتے تھے مگر ہم سب کا بڑا بھائی راجہ وحید جس نے اپنا سب کچھ قربان کر کے ہم تمام بہنوں اور بھائیوں کو بہترین انداز میں تعلیم دلوائی اور آج اپنے رب کے سامنے جنت کی سیر کر رہا ہو گا انشاء اللہ۔بھائی وحید اپنے والد کے بنا رہ نہیں سکتے تھے۔ میرے والد گرامی راجہ ایوب نے آرمی میں بے پناہ خدمات سر انجام دیں۔
بہرحال 1971 میں جب بنگلہ دیش الگ ہوا تو انڈیا والوں نے انہیں قید کر لیا تھا۔ چار چھے ماہ کے بعد خبر ملی کہ راجہ ایوب خان شہید ہو گئے ہیں۔ جب یہ خبر گاؤں والوں کو ملی تو گاؤں والے اور سارا خاندان پریشان بھی ہوا اور خوش بھی ہوا کہ اللہ پاک نے شہادت کا رتبہ عطا کیا۔ مگر غم یہ تھا کہ انکی میت معلوم نہیں کس حال میں ہوگی۔ بہرحال ایک سال گزرنے کے بعد جب میرا خاندان انکا سالانہ بھی کروا چکا تھا۔
اچانک ہمارے گھر کے اندر ایک بیمار اور پتلا سا آدمی نمودار ہوا کیونکہ اس وقت کسی گاؤں میں نہ تو چار دیواری ہوتی تھی اور نہ ہی دروازہ ہوا کرتا تھا۔ میری والدہ نے جب ہمارے والد گرامی کو دیکھا تو انکو یہ محسوس ہوا کہ انکے سر کے سائیں کی روح شاید اچانک آ گئی اور میری اماں اچانک بے ہوش ہو کر گر گئی۔ جب سب گھر والوں نے دیکھا تو سب سکتے میں آ گئے۔ پھر سارا محلہ اور گاؤں اکھٹا ہو گیا تو والد نے بتایا میں شہید نہیں ہوا آپ کو غلط خبر ملی ہے۔ میرے خیال میں ایک گھنٹے کے بعد میری والدہ کو ہوش آیا اور سب نے بتایا کہ یہ آپ کے خاوند ہیں اور وہ زندہ ہیں۔
پھر میری والدہ چار چھے گھنٹے تک بول نہیں پائی۔ یہ سب قصہ میری بڑی باجی نے مجھے بتایا۔ اسکے بعد میری امی سکون محسوس کرنے لگی۔ دو سال بعد میں پیدا ہوا۔ جب ہم سب بہن بھائی ان کے پاس بیٹھتے تھے تو میرے والد گرامی کہتے تھے بیٹا میرے دائیں بازو پر ہاتھ رکھو اور اس جگہ ہاتھ رکھو۔ جب ہم ہاتھ رکھتے تھے تو خدا کی قسم دو دو گولیاں یعنی ں لٹ گوشت میں چھپے ہوتے ہوتے اور پھر کہتے بیٹا میری ٹانگ کے نیچے دیکھو اللہ اکبر جب ہم دونوں ٹانگوں کو دیکھتے تھے تو دو دو فٹ کے فاصلے پر ماس کے اندر
گولیاں اسی حالت میں سوئی ہوئی دکھائی دیتی تھیں۔ جب ہم انہیں دبانے کے لیے انکے اوپر جاتے تھے تو وہ ہمیں کہتے تھے مجھے مت دباؤ مجھے تکلیف ہوتی ہے۔ گولیاں جسم کے اندر تھیں مگر کوئی زخم تک نہیں ہوا کیونکہ اللہ کے ہر کام میں مصلحت پوشیدہ ہوتی ہے۔ میرے والد گرامی نے ملک پاکستان کی خاطر اپنا سب کچھ قربان کر دیا مگر دشمن کو منہ توڑ جواب دیتے رہے۔ یاد رکھیں کہ یہ پوری دنیا کا قانون ہے کہ اگر کسی بھی ملک کی فوج کسی دوسرے ملک کے دشمنوں کو پکڑ لیتی ہے تو اسے گرفتار کر کے پابند سلاسل کر سکتی ہے مگر اسے گولیوں سے مار نہیں سکتی۔ جب میں اپنے ابا سے انکی داستان سنتا تو خدا کی قسم میں گھر سے باہر نکل جاتا اور بے بہا آنسوں نچھاور کر کے دو گھنٹے بعد واپس گھر آتا۔
میرے مرحوم والد گرامی بتاتے تھے کہ ہم نے کیئی کئی ہفتے کھانا نہیں کھایا اور پیاس کے بغیر زندہ رہے مگر اللہ سے کوئی شکوہ نہیں کیا۔ کہتے ہیں کہ کیا یہ کم تھا کہ اس نے ہمیں بھوک پیاس کے باوجود زندہ و تابندہ رکھا۔ میرے والد گرامی بتاتے ہیں کہ جب ہمیں کوئی پھل یا فصل نظر آ جائے تو ہم سب ایک دوسرے کو دینا شروع کر دیتے تھے۔ ہر شخص پہلے دوسرے دوست کو کہتا تھا تم کھاؤ مگر وہ کہتا تھا میں بعد میں کھاؤ گا پہلے آپ کھاؤ۔ پھر سارے اس خوراک کو ایک جگہ رکھ کر کھانے لگتے تھے۔یعنی بھوک کی وجہ سے لوگ اپنی اولادوں کو قتل کر دیتے ہیں مگر اس وقت انسانوں کے اندر دوسروں کے لیے محبتیں دل و دماغ میں راج کیا کرتی تھیں۔ کہتے ہیں ہمارے بہت سے آرمی آفیسرز اور سپاہی بھوک کی وجہ سے اللہ کو پیارے ہو گئے۔
کچھ ایسے لوگ تھے جنکی شادی کی تاریخ طے ہوچکی تھی مگر وہ بھی یا تو شہید ہو گئے یا پھر کسی جنگل میں یا سلاخوں کے اندر اللہ کے پاس چلے گئے مگر وہ سب شہادت کے رتبے پر فائز ہیں۔ جس وطن کے لیے ہمارے بزورگوں، نوجوانوں اور جوانوں نے اہنا سب کچھ قربان کر دیا اس ملک کو تباہ کرنے کیلئے ہمارے باہر کے دشمن تو دھڑا دھڑ لگے ہوئے ہیں مگر کچھ شر پسند عناصر جو پاکستان بننے سے پہلے اور پاکستان معرض وجود میں آنے کے بعد چاہے وہ کسی بھی پارٹی سے ہوں۔ وہ اس ملک پاکستان میں رہ کر ادھر بیٹھ کر اور اپنے سارے خاندان کو محفوظ پا کر بھی ملک پاکستان کو تباہ کرنے میں اپنا گھناؤنا کردار ادا کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ مگر یاد رکھیں آپ کے سارے کام ہماری ایجنسیاں بخوبی دیکھ رہی ہیں بس وہ اس لیے چپ ہیں کہ ہو سکتا ہے آپ سدھر جاؤ مگر اسکے بعد آپ اس دنیا میں بھی پچھتاؤ گے اور اگلی دنیا میں بھی زلیل وخوار ہوتے ہوئے دکھائی دو گے۔ اللہ پاک ملک پاکستان پاک فوج اور پاکستان کے تمام عوام کو سب سے پہلے اسلام اور اس کے ساتھ ساتھ ملک پاکستان کے حوالے سے بہترین سوچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ خدا کا واسطہ ہے کبھی ان عوام اور افراد کی طرف دھیان دیا کریں
جو ساری زندگی آزادی کی تلاش میں اہنے سارے خاندان کو آزادی کی خاطر یہ فانی دنیا چھوڑ گئے ہیں اور خود بھی معلوم نہیں کس وقت اللہ کو پیارے ہو جائیں۔ ہم رات کو سکون کی نیند سوتے ہیں کیونکہ ہم آزاد ہیں اور ہماری فوج ساری رات اپنی اولاد اور والدین اور پورے خاندان کو چھوڑ کر ہماری حفاظت کر رہی ہوتی ہے۔ اللہ پاک میرے بابا جانی اور وہ تمام آفراد جو اس دنیا سے جا چکے ہیں انہیں جنت میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور شہداء پاکستان کو جنت میں شہزادوں کی طرح زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے آمین۔ جن افراد کے بہترین کارنامے ہوتے ہیں انکے لیئے ایک شعر ملاحظہ فرمائیں اور پھر خدا حافظ اب یہ تیری مرضی مولا کب تک جلتا ہے رکھ آےء ہیں تیرگیوں میں دیا جلا کر ہم