شاہد جمیل منہاس/عطاالرحمٰن چوہدری اپنی نوعیت کا واحد انسان ہے جو چوہدراہٹ کے بغیر عاجزی اور انکساری کا پیکر بن کر روشن ستارے کی طرح ارد گرد کے باسیوں کے لیئے ایک نعمت بن کر زندہ و تابندہ ہے۔ واہ ٹیکسلا اور گردونواح میں جب جاہلیت عام تھی تو ان کے آباو¿اجداد نے تعلیم کے چراغ ایک ایک کر کے روشن کرنا شروع کیئے۔ اس سفر کے دوران یہ چراغ تُند و تیز ہواو¿ں اور طوفانوں کی زد میں رہا مگر بجھ نہ سکا۔
فانوس بن کر جس کی حفاظت ہوا کرے
وہ شمع کیا بجھے جسے روشن خُدا کرے
ایک کرسی اور بغیر میز کے شُروع ہونے والا یہ تعلیمی ادارہ آج لاکھوں دلوں میں گھر کر چکا ہے۔ ان کے ہاتھوں سے لگائی گئی پنیری آج پھول دار اور پھلدار گھنی چھاوں والے تناور درختوں کا روپ دھار چکی ہے۔ مُلک پاکستان کے ہر محکمے میں ان کے شاگرد بڑے بڑے عہدوں پر فائز ہیں اور یہ باورکروا رہے ہیں کہ وہ ایسے افراد کے ہاتھوں میں تربیت یافتہ ہوئے کہ جس کا ماضی اور حال کھلی کتاب کی طرح عیاں ہے۔ ہم نے اور آپ نے دیکھا کہ اکثر اساتیدِمکرم کی اولادیں تعلیم کے میدان میں وہ کارنامے سرانجام نہیں دے پاتیں معاشرہ اُن سے جسکی توقع کر رہا ہوتا ہے۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ بے شمار اساتذہ کرام موجود ہیں کہ جن کی اولادیں اپنے والدین سے بڑھ کرثابت ہوئیں۔ ایسے والدین میں عطاالرحمٰن چوہدری اوراُنکی رفیق حیات کا نام شامل ہے۔ یہ دونوں زندگی کے ہم سفر ہر وقت اپنے چہروں پر محبت بانٹتی مُسکراہٹوں سے ارد گرد بسنے والوں کو اپنی اُلفت والی مُٹھی میں قید کرتے جاتے ہیں۔ جس کا ثبوت انکی اولاد کی کامیابی کی صورت میں ہمارے سامنے ہے۔ ان کا ایک بیٹا دُنیا کی بہادر ترین فوج‘پاک فوج کا نڈر آفیسر بن کر اس مُلک کی خاطر مرنے مٹنے کے لیئے تیار ہے۔ عطاالرحمٰن چوہدری اپنی زندگی میں پیش آنے والے حالات و واقعات کو بے باکی سے اوربہادری سے اخباری کالموں کی صورت میں عوام الناس تک پہنچاتے رہتے ہیں۔ یعنی وہ اپنے تجربات جن سے کامیاب ہوئے ان کو عوام الناس تک پہنچا کر صدقہ جاریہ کا کام کر رہے ہیں۔عموماََ اپنی کامیابیوں کے گُر یا فارمولے آج کے دور میں کوئی بھی دوسروں کو بتانا نہیں چاہتا مگر عطاالرحمٰن چوہدری اس حوالے سے اپنی تمام تر کامیابی اللہ تعالیٰ کی ذات سے منسوب کر کے دوسروں کے لیئے کامیابیوں کے طریقے وضع کر کے سبق دے کر یہ ثابت کرتے ہیں کہ جو چیز آپ حاصل کرنا چاہتے ہیں اُسے بانٹنا شُروع کر دیں۔ اُن کو ربّ کی ذات پر پورا یقین ہے کہ اپنی صلاحیت‘دولت ‘رزق اور ہر اچھی چیزتقسیم کرنے سے آپ کے پاس موجود صلاحیتیںضرب ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہواکہ اگر آپ غریب ہونا چاہتے ہیں تو تعلیم کا عمل روک دیں یا دوسروں کو دینا چھوڑ دیں۔ آپ کا گودام دیکھتے ہی دیکھتے چوہوں اور کیڑے مکوڑوں کی نظر ہو جائے گا۔ عطاالرحمٰن چوہدری کی زندگی کا فارمولا اور نچوڑ یہ ہے کہ نقاسی آب سے پانی صاف شفاف اور بیماریوں سے پاک رہتا ہے اورجب نکاسی کا عمل رُک جائے تو وہ غلاظت شدہ تو ہو ہی جاتا ہے مگر وہ سانپوں کا مسکن بھی بن جاتا ہے جو ایک وقت میں 99بچے پیدا کرتا ہے۔ عطاالرحمٰن چوہدری کی زندگی کا اصول بڑا سادہ سا ہے اور آسان ترین۔ وہ یہ کہ جتنی اچھی سوچ اتنا اچھا اجر اس دُنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔ آج عطاالرحمٰن چوہدری دی فاو¿نڈرز ایجوکیشن سسٹم کے تحت اقوام عالم میں روشن ستارے کی طرح جگ مگ جگ مگ کر رہے ہیں۔ اپنی زندگیوں کے تمام واقعات اور کامیابیوں کو جب کالموں کی شکل میں نوجوانوں اور اقوام عالم تک پہنچاتے ہیں تو علم کے مینار کی طرح سب کی نظروں میں محفوظ رہتے ہیں۔ روزنامہ نوائے وقت‘روزنامہ اوصاف اور بے شمارمُلکی‘غیر مُلکی اور لوکل اخبارات و رسائل میںہم آپ کو اکثر پڑھتے رہتے ہیں۔ معاشرے کی بیماریوں کے لیئے آپ کی تحریریں اکسیرکا کام کرتی ہیں۔ آپ کی ایک کتاب دل کی باتیں بازاروں اور بُک سٹالز پر ناپید ہو چکی ہیں۔ وہ اس لیئے کہ ہر شخص آپ کی تحریروں کو پڑھنا چاہتا ہے۔ اُنکی نئی آنے والی کتاب کے بہت سے کالم میں نے پڑھے ۔ اس دوران ماضی اور حال کی دلکش وادیوں کی سیر کرتا رہا۔عطاالرحمٰن چوہدری آپ جو کام کر رہے ہیں وہ بہت کم افراد کے حصے میں آتا ہے۔ آپ جیسے نایاب افراد کسی قوم کا بہت بڑا اثاثہ ہوا کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے دُعا ہے کہ وہ آپ کو طویل اور با مقصد زندگی عطافرمائے تا کہ آپ کی موجودگی سے یہ معاشرہ حصول علم میں کوشاں رہے۔ آج کی نوجون نسل کو بے راہ روی کا شکار ہونے سے روکنے والی ہستی عطاالرحمٰن چوہدری کاوجود ریزہ ریزہ اور پاوں چھلنی ہو چکے ہیں مگرمطمئن اتنے کہ شائد ہی کوئی ہو۔ دوسروں کی اولادوں کے لیئے بہترین سوچنے والے والدین کی اولاد بھلا کیسے ناکام ہو سکتی ہے۔ آج عطاالرحمٰن چوہدری ، انکی رفیق حیات اور انکی اولادیں اپنی کامیابیوں کو دوسروں کی ناکامیوں سے ٹو چین کرتی ہوئی پائی جاتی ہیں۔ ربّ رحیم سے دُعا ہے کہ وہ ایسے ہیرے ہماری قوم کے مقدرمیں لکھ دے کہ یہ لوگ بڑے نایاب ہوا کرتے ہیں۔
بہت چھالے ہیں اُس کے پیروں میں
کم بخت اُصولوں پہ چلا ہو گا
535