خود احتسابی

عبدالجبار چوہدری
قرآن حکیم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ ’’ہم نے جن اور انسان پیدا کئے مگر عبادت کے لیے‘‘ (پارہ 27،سورۃ الذاریات، آیت56)۔رب کائنات کی یاد میں اپنے وقت کو خرچ کرنا ہی حقیقی زندگی ہے بلاشبہ زیست کے سفر کور رواں دواں رکھنے کے لیے بہت سے کام انجام دینا ہوتے ہیں ان روز مرہ کاموں کی حدود وقیود شریعت اسلامیہ نے متعین کر رکھی ہیں حلال روزی کی تلاش جس پر اللہ تعالیٰ نے اپنا فضل فرمایا ہے اور حلال کمانے والے کو اپنا حبیب قرار دیا ہے اس لیے ہمارے اشغال یومیہ یعنی روزانہ کے کام کاج رب کی ذات سے غافل کرنے والے نہ ہوں تو یہ صحیح ہو گا اسی خاطر روز مرہ کی مصروفیت بناتے کاموں کو ترتیب دینے میں حدود درجہ احتیاط اپنانا ضروری ہے مثلا بے دریغ سرمایہ خرچ ہو گا بلکہ قیمتی وقت کی قربانی بھی دینا پڑے گی اکثر لوگ غیرضروری کاموں میں وقت صرف کرنے کو مصروفیت کا درجہ دیتے ہیں اگر غیر جانبداری سے اس مصروفیت کا جائزہ لیا جائے تو سوائے وقت کے ضیاع کے کچھ بھی حاصل نہیں ہو رہا ہوتا پیسہ کمانے،کاروبار کرنے کی خاطر دوڑ دھوپ اس حد تک ہی کی جائے کہ یاد الہیٰ سے غافل ہونے کی وجہ نہ بنے بہرحال انسان کا مطلوب و مقصود رب العالمین کویاد کرنا ہے اور اسی لیے ‘صحت‘ سہولت‘ گھر‘ روزگار‘ سواری‘ اولاد اور اہلخانہ ہوتے ہیں ان سب کے باوجود بھی محض روز مرہ کی تگ دو کم کر کے عبادت الہیٰ کا ذوق نہ پورا کیا جائے تو یہ ناشکری کے زمرے میں آتا ہے روز مرہ کے کاموں کوہم اپنی زندگیوں پر ا س قدر حاوی کر چکے ہیں کہ بنیادی مقصد تخلیق سے دور ہو چکے ہیں کہ ہمیں عبادت کے لیے پیدا کیا گیا ہے دیگر کام شغل کی حد تک ہوں تو بہتر ہے مگر ان کاموں کو حرز جاں بنا لینا ،بہر طور عقل مندی اور شعوری کی کوشش نہیں ہے سیاسی نظام پر بحث اور سیاسی وابستگی کی وکالت ‘حکومتی معاملات اور قومی مسائل پر لاحاصل بحث اور سیاسی رہنماؤں کے بیانات ہماری گفتگو کا لازمی حصہ بن چکے ہیں ،سننا کم اور بولنا زیادہ کو عادتااختیار کر رکھا ہے حالانکہ سنو زیادہ اور بولو کم کا حکم شرعی ہے اس وجہ سے عبادت میں لذت آشنائی اور سوزو گداز ختم ہو چکا ہے رحم کے جذبات بھی زیادہ خاموش رہنے سے پید اہوتے ہیں کیوں کہ سوچنے سمجھنے کا موقع زیادہ ملتا ہے کسی کے بارے رائے قائم کرنے ،نفرت یا محبت کے لیے ،مدد اور رحم کے لیے دوسروں کی دی گئی معلومات کی روشنی میں رائے قائم کرتے ہیں اور اس پر عمل کر بیٹھتے ہیں نفع اور مدد کرنے میں دیرنہ کریں مگر ظلم زیادتی اور نقصان کرنے کے لیے ضرور انتظارکریں کوئی مت سمجھے کہ اسے پتہ نہیں ہوتا کہ وہ کسی کا نفع کر رہا ہے یا نقصان کسی کی مدد کر رہا ہے یا ظلم یہ سب اپنے ضمیر کے ذریعے اچھی طرح معلوم ہوتا ہے جو ایک ریفری کی صورت میں ہر وقت کام کرتا ہے صبح سے لیکر شام تک کی بھاگ دوڑ کا ازسر نو جائز ہ بہت ضروری ہے جب ہم طالب علم تھے تو صلوٰۃ کا عادی بنانے کے لیے ہمارے ایک استاد محترم نے پاکٹ ڈائری خریدنے کا حکم دیا اس پر پانچ وقت کے اوقات اور صلوٰۃ کے نام درج کرائے اور حاضر ی رجسٹر کی طرح صلوٰۃ کے ادا کرنے کی صورت میں درست اور صلوٰۃ قضا کرنے کی صورت میں غلط کا نشان لگا دیتے تھے ایک ہفتہ بعد جب استاد محترم ہماری ڈائریوں کا جائزہ لیتے تو ہم خود بخود ہی اگلے ہفتے صلوٰۃ قضا نہ کرنے کا عزم کر چکے ہوتے اور باقاعدہ نماز کی ادائیگی معمول بن گیا تھا اس طرح کے چھوٹے چھوٹے پیمانے ہم نے خود بنانے ہیں اور کسوٹی پر خود کو رکھنا ہے تاکہ فلاح پانے کی صورت میں ہم سے جنت کا وعدہ رب قدوس نے فرما رکھا ہے اس کے حق دار بن سکیں تنہائی جب ان چیزوں کے جائزہ کے لیے اختیار کی جائے تو بہت جائزہ لینا بھی خود احتسابی کی بہترین مثال ہے زبانی ہی سہی چوبیس گھنٹوں کے بعد خو د کو کٹہرے میں ایک مرتبہ کھڑا تو کرتا ہے بس اپنے اشغال یومیہ روزمرہ کے کاموں کو حد کے اندر رہ کر انجام دیا جائے اور مقصد تخلیق کے حقیقی سفر پر گامزن اپنے آپ کو کر کے فلاح کاد رجہ حاصل کیا جائے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں