حکومت کی غیر تسلی بخش کارکردگی اور اپوزیشن کا غیر مؤثر احتجاج

یہ تو ایک حقیقت ہے کہ موجودہ حکومت کی کارکردگی انتہائی مایوس کن ہے۔ کسی ایک شعبے میں بھی انہوں نے کوئی قابل ذکر کام نہیں کیا،سوائے پریس کانفرنسوں کے ان کے پلے کچھ نہیں ہے بس اس کام میں تو بہت تیز ہیں اور ہر الٹے کام کی کوئی نہ کوئی وجہ تلاش کر ہی لیتے ہیں خواہ وہ کتنی ہی مضحکہ خیز کیوں نہ ہو۔ پہلے احتساب کے نام پر ملک میں ایک اچھا خاصا تماشا لگایا، آئے روز اپوزیشن جماعتوں سے تعلق رکھنے والے سیاستدانوں کی پکڑ دھکڑ، گرفتاریاں اور نیب عدالتوں میں پیشیاں جاری رہیں۔ حکمران جماعت سے تعلق رکھنے والے تمام سیاستدان اس احتساب سے مبرا تھے وہ سب پاک صاف تھے، اب سب سے زیادہ آفشور کمپنیاں بھی انہی کی نکلی ہیں۔ لیکن گرفتاریوں کے وقت نیب اور دیگر ادارے اپوزیشن جماعتوں کے پیچھے پڑے رہے جبکہ وزیراعظم اور ان کے کرپٹ وزراء اس احتساب سے بچے رہے۔ تقریباً تمام اپوزیشن رہنما گرفتار ہوئے اور عدالتوں میں پیش ہوئے ابتداء میں تو اسمبلی اجلاسوں میں اپوزیشن کی نمایاں تشستیں خالی ہو گئی تھیں، اتنی بڑی تعداد میں گرفتاریاں ہوئیں۔ جو گرفتار ہوئے ان سے کچھ بھی نہ برآمد کر سکے اور پھر رفتہ رفتہ ان کا یہ نام نہاد احتساب خود ہی دم توڑ گیا۔ اب احتساب کی رٹ تو ختم کر دی گئی ہے لیکن ملک و قوم کے لیے تباہی کا خوب سامان کر رہے ہیں۔ ملک میں ہر طرف افرا تفری ہے لوگ مہنگائی کی وجہ سے انتہائی پریشان ہیں۔ نوبت فاقوں تک آگئی ہے۔ یہ سب حقائق ہیں جن سے ہر شخص واقف ہے جن کے خلاف عوامی رد عمل یقینی ہے وہ جس شکل میں بھی ہو لیکن اپوزیشن جماعتیں بھی اپنے تئیں ردعمل دکھانے کی کوشش کر رہی ہیں۔ اس سلسلے میں وہ جلسے جلوس اور ریلیوں کا عندیہ دے چکے ہیں۔ مگر موجودہ حکومت اس لحاظ سے بہت خوش قسمت ہے کہ انہیں اپوزیشن بہت کمزور ملی ہے، انہوں نے جیسے پی ڈی ایم بنائی تھی اور پھر رہبر کمیٹی کا کیا شاندار تصور تھا لیکن وہ اپنی ہی ناقص پالیسیوں اور پی ڈی ایم میں شامل خود غرض سیاستدانوں کی وجہ سے یہ اتحاد کمزور ہی رہا۔ حکومت نے اس کی کمزوریوں سے بھرپور فائدہ اٹھایالیکن یہ اپنی طاقت کا ادراک نہ کر سکے جس کی وجہ سے کوئی فائدہ بھی حاصل نہ کر سکے۔ کئی ایک بل حکومت نے ایسے پاس کیے جو اپوزیشن رہنماؤں کے مفادات کے خلاف تھے لیکن انہوں نے خود ان پر دستخط کیے کیونکہ انہیں مجبور کر دیا گیا تھا۔ ایسے بل پیش کرنے سے پہلے اداروں کو متحرک کر دیا جاتا تھا اور پھر وہی ہوتا تھا جو حکمران جماعت چاہتی تھی۔اب اپوزیشن جماعتیں پہلے ہی حکومت کے خلاف اپنی گھسی پٹی تحریک چلانے جا رہی تھیں اوپر سے پیٹرول اور دیگر ضروری اشیاء کی قیمتوں میں اچانک بے تحاشا اضافے نے جلتی پر تیل کا کام دیا اور عوام بھی حکومت کے خلاف بھڑک اٹھے جس سے اپوزیشن جماعتوں کو مزید حوصلہ ملا اور انہوں نے حکومت کے خلاف بھرپور تحریک چلانے کا اعلان کر دیا۔ کہیں جلسے کہیں احتجاجی مظاہرے اور کہیں ریلیاں نکلیں گیں اور ان دو چار سو افراد کے جلسوں کے ذریعے حکومت کو گھر بھیجنے کی کوشش کی جائے گی۔ موجودہ حالات ایسے نہیں ہیں کہ ان چھوٹی چھوٹی تحریکوں کے ذریعے حکومت کو گھر بھیجا جا سکے بلکہ جتنے سائز کی تحریک اپوزیشن چلا رہی ہے اس سے بیس تیس گنا بڑی تحریک بھی چلا لی جائے تب بھی یہ ناممکنات میں سے ہے ہاں کوئی بہت بڑی انقلابی تحریک ہو تو تبھی ایسا کچھ ہو سکتا ہے۔ مگر یہ ہماری ننھی منی پی ڈی ایم کے بس کی بات نہیں ہے۔ کیونکہ پی ڈی ایم کے پاس تو کوئی لائحہ عمل ہی نہیں ہے کہ کیا کرنا ہے اور کیسے کرنا ہے؟ بلکہ ان کے تو مفادات ہی ایک دوسرے سے کافی مختلف ہیں، کئی طرح کے اختلافات اور کدورتیں ایک دوسرے کے لیے ان کے دلوں میں موجود ہیں تو پھر یہ تحریک کیسے کامیاب ہو سکتی ہے؟ پیپلز پارٹی نے تو پہلے ہی اپنے راستے جدا کر لیے تھے۔ پیچھے بڑی جماعت مسلم لیگ (ن) اور پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمن رہ گئے۔ مولانا صاحب کے بغیر پی ڈی ایم کچھ نہیں ہے، ان کے بغیر کوئی بھی تحریک نہیں چلا سکتا اور نہ ہی کوئی اور رہنما پی ڈی ایم میں ایسا ہے جو بے خوف حکومت پر وار کر سکتا ہے۔ مریم نواز کافی حد تک اس کی کوشش تو کرتی ہیں لیکن تنہا وہ بھی کچھ نہیں۔ رہے شہباز شریف تو جناب تو ویسے ہی قدم قدم پر بچھ جانے کو تیار رہتے ہیں جس کی وجہ سے پی ڈی ایم کو کافی نقصان بھی پہنچا ہے۔
لہٰذا اگر پی ڈی ایم واقعی حکومت کے خلاف تحریک چلانا چاہتی ہے تو کم از کم ایک مؤثر لائحہ عمل تو ترتیب دے اور ہر گلی محلے میں چھوٹی چھوٹی جلسیوں کی بجائے بڑی ریلی کا اہتمام کرے اور عوام کو باور کرائے کہ واقعی وہ ان کے مفاد کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں تبھی وہ ساتھ دیں گے۔ اگر ویسے ہی انتخابات تک خود کو سیاست میں زندہ رکھنے کا مقصد ہے تو پھر یہ چھوٹی چھوٹی ریلیاں اور جلسے ہیں آپ کے لیے ٹھیک ہیں بس عوام کو نہ ستائیں اور آرام سے وقت گزاری کریں۔ یوں آپ کا وقت تو اچھا گزر جائے گا حکومت کی طرف سے بھی آپ کو روکا نہیں جائے گالیکن آپ کا نام ایک ناکام اپوزیشن کے طور پر آپ تاریخ کے اوراق میں لکھا جائے گاکیونکہ موقع آپ کے پاس بہت اچھا تھا، ماضی کی تمام تجربہ کار سیاسی جماعتیں اکٹھی ہو چکی تھیں اگر کچھ کرنا چاہتیں تو بہت کچھ کر سکتی تھیں لیکن اپنے چھوٹے چھوٹے مفادات کی خاطر آپ نے تمام مواقع گنوا دیے

اپنا تبصرہ بھیجیں