columns 172

حکومت و فرمانروائی کا اصل حقدار کون

قرآن مجید میں اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے کہ اللہ نے وعدہ فرمایا ہے کہ تم میں سے ان لوگوں کے ساتھ جو ایمان لائیں اور نیک عمل کریں کہ وہ ان کو اسی طرح زمین میں خلیفہ بنائے گا جس طرح ان سے پہلے گزرے ہوئے لوگوں کو بنا چکا ہے۔ان کے لیے اس دین کو مضبوط بنیادوں پر قائم کر دے گا جسے اللہ تعالی نے ان کے حق میں پسند کیا ہے اور ان کی موجودہ حالت خوف کوامن سے بدل دے گا

بس وہ میری بندگی کریں اور وہ میرے ساتھ کبھی کسی کو شریک نہ کریں اور جو اس کے بعد کفر کرے تو ایسے ہی لوگ فاسق ہیں اس ارشاد سے مقصود منافقین کو متنبہ کرنا ہے کہ اللہ نے مسلمانوں کو خلافت عطا فرمانے کا جو و عدہ کیا ہے اس کے مخاطب محض مردم شماری کے مسلمان نہیں ہیں بلکہ وہ مسلمان ہیں جو صادق الایمان ہوں اخلا ق اور اعمال کے اعتبار سے صالح ہو اللہ کے پسندیدہ دین کا اتباع کرنے والے ہوں اور ہر طرح کے شرک سے پاک ہو کر خالص اللہ کی بندگی و غلامی کے پابند ہوں

ان صفات سے عاری اور محض زبان سے ایمان کے مدعی لوگ اس وعدے کے اہل ہیں اور نہ ہی یہ وعدہ ان سے کیاگیا ہے لہذا وہ اس میں حصہ دار ہونے کی توقع نہ رکھیں اس آیت کا مطلب سمجھنے میں بعض لوگوں نے سخت ٹھوکر کھا ئی ہے اور اس سے ایک ایسامطلب نکال لیا ہے جو پورے قرآؓ ن کی تردیداورپورے نطام دین کی بیخ کنی کر دیتا ہے وہ آیت کا مطلب نہ لیتے ہیں کہ دنیا کی موجودہ زندگی میں زمین کی ورا ثت یعنی حکومت کی فرمانر وائی اور زمین کے وسائل پر تصرٖف صر ف صا لحین کوملا کرتی ہے

اور انہی کو اللہ تعالی اس نعمت سے نوازتا ہے اور پھر قاعدہ کلیہ سے وہ یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ صالح اور غیر صالح کے فرق و امتیاز کا معیار یہی وراثت زمین ہیں جس کو یہ وراثت ملی ہے وہ صالح ہے اور جس کو نہ ملے وہ غیر صالح اس سے آگے بڑھ کر ان قوموں پر نگاہ ڈالتے ہیں جو دنیا میں پہلے وارث زمین رہی ہیں اور آج اس وراثت کی مالک بنی ہوئی ٰہیں یہاں وہ دیکھتے ہیں کہ کافرمشرق،فاسق فاجر سب یہ وراثت سے پہلے بھی پاتے رہے ہیں اور آج بھی پارہے ہیں جن قوموں میں وہ تمام اوصاف پائے گئے ہیں

اور آج پائے جاتے ہیں جنہیں قرآن صاٖف الفاظ میں کفر فسق فجور معصیت اور بدی سے تعبیر کرتا ہے وہ اس وراثت سے محروم نہیں ہوئیں بلکہ نوازی گئیں اور آج بھی نوازی جا رہی ہیں فرعون نمرود سے لے کر اس زمانے کے کیمونسٹ فرمانرواؤں تک کتنے ہیں جو کھلم کھلا اللہ کے منکر مخالف بلکہ مدمقابل بنے ہیں مگر پھر بھی وارث زمین ہوئے ہیں اس منظر کو دیکھ کر وہ یہ رائے قائم کرتے ہیں کہ قرآن کا قائدہ و کلیہ تو غلط نہں ہو سکتا اب لا محالہ غلطی جو کچھ ہے وہ صالح کے اس مفہوم میں ہے

جو اب تک مسلمان سمجھتے رہے ہیں چنانچہ وہ صلاح کاایک نیا تصور تلاش کرتے ہیں جس کے مطا بق زمین کے ہونے والے سب لوگ یکساں صالح قرار پا سکیں قطع نظر اس سے کہ وہ ابو بکر صدیق اور عمر فاروق ہوں یا چنگیز اورہلاکو اس نئی تفسیر کی رو سے اس آیت زیر بحث کے معنی یہ قرار پاتے ہیں کہ جو شخص اور گروہ بھی ممالک کو فتح کرنے اور ان پر بزور قوت کے ساتھ اپنی حکومت چلانے اور زمین کے وسائل کو کامیابی کے ساتھ استعمال کرنے کی قابلیت رکھتا ہو وہیں اللہ کا صالح بندہ ہے

اور اس کا یہ فعل تمام عابد انسانوں کے لئے ایک پیغام ہے کہ عبادت اس چیز کا نام ہے جو یہ شخص اور گروہ کر رہا ہے اگر یہ عبادت تم نہیں کرتے اور نتیجہ
میں وراثت زمین سے محروم ہو جاتے ہو تو نہ تمہارا شمار صالحین میں ہو سکتا ہے اور نہ تم کو اللہ کا عبادت گزار بندہ کہا جا سکتا ہے یہ معنی اختیار کرنے کے بعد ان حضرات کے سامنے یہ سوال کرنا کہ اگر صلاح اور عبادت کا تصور یہ ہے تو پھر وہ ایمان یعنی ایمان باللہ، ایمان بالیوم الآخر، ایمان الرسل اور ایمان بالکتب کیا ہے جس کے بغیر خود اسی قرآن کی رو سے اللہ کے ہاں کوئی عمل صالح مقبول نہیں اور پھر قرآن کی اس دعوت کے کیا معنی ہیں کہ اس کے نظام اخلاق اور قانون زندگی کی پیروی کرو جو اللہ نے اپنے رسول کے ذریعے بھیجا ہے

اور پھر قرآن کا بار بار یہ کہنا کیا معنی رکھتا ہے کہ جو رسول کا کو نہ مانے اور اللہ کے نازل کردہ احکام کا اتباع نہ کرے وہ کا فر فاسق، عذاب کا مستحق اور مغضوب بارگاہ خداوندی ہے یہ سوالات ایسے تھے کہ اگر یہ لوگ ان پر ایمانداری کے ساتھ غور کرتے تو محسوس کر لیتے کہ ان سے اس آیت کا مطلب سمجھنے اور صلاح کا ایک نیا تصور قائم کرنے میں غلطی ہوئی ہے لیکن انہوں نے اپنی غلطی محسوس کرنے کے بجائے کے پوری مہارت کے ساتھ ایمان اسلام توحید آخرت رسالت ہر چیز کے معنی بدل ڈالے

تاکہ وہ سب اُن کی اس ایک آیت کی تفسیر کے مطابق ہو جا ئیں اور اس ایک چیز کو ٹھیک بٹھانے کی خاطر انہوں نے قرآن کی ساری تعلیمات کو اُلٹ پلٹ کر ڈالا اس پر وظیفہ یہ ہے کے جو لوگ ان کی اس مرمت دین سے اختلاف کرتے ہیں اُن کو یہاں الٹا الزام دیتے ہیں کہ خودبدلتے نہیں قرآن کو بدل دیتے ہیں یہ در اصل مادی ترقی کی خواہش کی ایک ایسی بیماری ہے جو بعض لوگوں کو اس بری طرح لاحق ہو گئی ہے کہ وہ قرآن کی معنوی تحریف کرنے میں بھی ذرہ تامل نہیں کرتے۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں