حکومت نے بلدیاتی انتخابات کا طبل بجادیا 159

حکومت نے بلدیاتی انتخابات کا طبل بجادیا

ملکی سیاست میں ان دنوں بلدیاتی انتخابات کا شوشہ پوری آب تاب کیساتھ چمکنے کی کوشش کررہا ہے چند دن قبل بلدیاتی انتخابات کے ہلکے دھماکے نے مقامی سیاسی کھڑپینچوں کو اسسرد موسم میں بھی کلف والے کپڑے پہننے پر مجبور کردیا ہے

دعوت ولیمہ اورفوتگی کے لیے ہر امیر غریب کے گھروں کی طرف جانیوالے روڈ تقریبا آباد ہوچکے ہیں تو دوسری طرف ترقیاتی کاموں کا ایک بڑا سلسلہ دھڑلے سے جاری وساری ہے

اور عرصہ دراز سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار گلیاں اور روڈز نئے سرے سے بننے کے لیے زور شور سے کام جاری ساری ہے آئے روز رنگ برنگے افتتاح سمیت سوشل میڈیا پر
ایک ایسا طوفان جاری ہے لگتا ہے کہ ہم سب

چاند پر پہنچنے والے ہیں اگر وطن عزیز میں بلدیاتی نظام پر نظر ڈالیں توبلدیاتی نظام کاسب سے کامیاب دور صدرمشرف کا تھا جس نے 2001 ء اور 2005ء میں یہ نظام مضبوط بنیادوں پر نہ صرف استوار کیا

بلکہ ناظمین کو مفاد عامہ اور انتظامی امور کے میدان میں لامحدود اِختیارات سونپے گئے۔ بلدیاتی نظام میں نمائندوں کا اپنے علاقہ سے منتخب ہونے کی وجہ سے وہ نہ صرف چوبیس گھنٹے عوام کی خدمت پر مامورتھے

اس نظام کی ایک اور اہم خوبی خواتین کی انتخابات میں شمولیت تھی جس سے اہلِ علاقہ سے ہونے کی بناء پر وہ ان خواتین اْمیدواروں کا چناؤ کر سکتی ہیں جن پر وہ نہ صرف بھروسہ کرتی ہیں بلکہ اْنہیں یقین ہوتا ہے

کہ وہ ان کے مسائل کو اْجاگر کرنے اور حل کرنے کی بھر پور سعی کریں گی یہ عوام کو ریلیف دینے کا فوری اور مضبوط ذریعہ ہے وطن عزیز کے عام انتخابات میں 47/45فارم کی بازگشت کم نہ ہوئی تھی

کہ ن لیگ کی تقریبا لولی لنگڑی حکومت نے ایک بارپھر بلدیاتی انتخابات منعقد کروانے کا ایک شوشہ چھوڑ دیا جسے عرف عام میں ہوا چیک کرنا بھی کہا جاسکتا ہے

تاہم اسکا باقاعدہ اعلان نہیں کیا گیا کوئی بھی حکومت معرض وجودمیں آنے سے پہلے ان کے منشور میں یہ بات شامل ہوتی ہے کہ بلدیات کو مضبوط بنایا جائیگا اورعوام کو ریلیف دینے کے لیے بلدیاتی نظام کو مضبوط کیا جائیگا اللہ کرے

کہ اس ملک میں بلدیاتی نظام اصل شکل میں رائج ہوجائے تونہ صرف عوام کوحقیقی نمائندگی حاصل ہوسکے گی وطن عزیز میں اس وقت سیاست تقریبا انارکی کا شکار ہوچکی ہیں

ملک کی بڑی سیاسی جماعتیں جو باری باری حکومت کے لیے باری باری کی سیاست کرتی رہی ہیں اس وقت تقریبا ایک دوسرے سے سیاسی حوالہ سے دست گریباں نظر آتی ہیں

اور انکی حالت اس ترازو کی سی ہے جس میں مینڈک تولنے کی کوشش کی جائے تو یہ کام ممکن ہوتا نظر نہیں آتالیکن بھلا ہو اسٹیبلشمنٹ کا جس کے ترازو نے یہ مینڈک بھی تول ڈالے ہیں

اس اس ترازو سے تحریک انصاف کا مینڈک باہر ہے جو شائید تلنا چاہتا ہے لیکن اسے تولا نہیں جارہا ن لیگ کے گزشتہ دور میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں حکمران جماعت کی

واضع کامیابی کے باوجودبھی تقریبا تین سال تک ضلع راولپنڈی کے ضلعی چیئرمین کا انتخاب نہ کیا جا سکا جس کا سہرا ن لیگ کے اس وقت کے چہیتے چوہدری نثار علی خان کے سر جاتا ہے

کیونکہ منتخب نمائندوں کی موجودگی میں ان کے ترقیاتی فنڈز کو ہڑپ کرنا کسی صورت بھی ممکن نہ تھا لیکن جب منتخب نمائندے خود ہی مخلص نہ ہوں تو عوام کی حالت کیسے بدل سکتی ہے

کیا اب گلی محلوں میں شروع ہونے والے ترقیاتی کام ان بلدیاتی انتخابات کا پیش خیمہ تو نہیں خیر جو بھی اللہ کرے عوام کا بھلا ہو لیکن گیس اور روات ہسپتال جیسے بڑے منصوبے حلقہ میں پایہ تکمیل تک پہنچانے کے نام پر ان سیاستدانوں کو پتہ نہیں سانپ کیوں سونگھ جاتا ہے

تو دوسری طرف ترقیاتی کاموں میں من مرضی کا زمہ دار کون چندروز قبل حلقہ پی پی 9کی یوسی بگا شیخان کے گاوں لوسر میں ایک عجیب نظارہ دیکھنے ملا جب گاوں کے لوگوں نے ٹھیکدار کے بندوں کو چند انچ کنگریٹ روڈ پر ڈالنے سے روکا تووہ گلے پڑ گے راقم موقع پر گیا

تو موقع پر نہ ٹھیکدار نہ انجیئنر اور نہ کوئی ڈیپارٹمنٹ سے متعلقہ شخص ورک آڈر کے بغیر کام جاری جبکہ ٹھیکدار کا ایک بھائی کام کی نگرانی کررہا ہے

کروڑوں روپے کے ٹھیکے لیکر ورک آڈر کے بغیر من مرضی کا کام کروانے والے ٹھیکدار کے ہاتھ سیاسی طور پر شائید بہت اوپر ہیں

اس لیے تو وہ عوام کے گلے پڑ رہے ہیں شوکت بھٹی کے PAنے کال کرکے کہا کہ یہ کام انکا نہیں ہے چیک کیا تو الیکشن میں شکست کھانے والے جاوید اخلاص اس کے کرتا دھرتا تھے

ٹھیکدار اپنا کام دکھا کر یہ جاء وہ جاء ہوچکا لیکن کیا اس غیر معیاری کام کو چیک کیا جائیگا کیا ایسی کمپنی سرکاری ٹینڈر کی اہل ہے جسکا ٹھیکدار کام کروانے کے بجائے سیرسپاٹے پر نکلا ہوایسے ٹھیکدار ہی منتخب نمائندوں کے فرنٹ مین ہوتے ہیں

جب ٹھیکہ ہی رشوت دیکر حاصل کیا جائیگا تو اس میں شفافیت کہاں سے ہوگی اور کام خیر سے کیسے ہوگا ن لیگ کو ایک بار پھر اقتدارملا ہے اس کی قیادت کو چاہیے

کہ اپنی سابقہ غلطیوں کو درست کرتے ہوئے اپنے درست سیاسی سفرکا آغاز کرے اگر انکا یہی وطیرہ رہا اور ٹھیکے من پسند افراد کو دیکر اسی عوام کے گریبانوں پر ہاتھ ڈالے جاتے رہے

توآنے والے بلدیاتی الیکشن میں انہیں وہی کامیابی نصیب ہوگی جو عام الیکشن میں ملی تھی لیکن بلدیات میں شائید 45/47فارم ممکن نہ ہوتو فارم 50بھی ایجاد کیا جاسکتا ہے یہاں سب ہوسکتا ہے ماسوائے درست کا کرنیکے اللہ وطن عزیز کو سلامت رکھے

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں