53

حفیظ اختر راجہ‘ گمنام شاعر

حفیظ اختر راجہ کا تعلق تحصیل گوجرخان کے گاؤں موہڑہ ماڑی سے ہے۔ شاعری تو یہ کئی دہائیوں سے کر رہے ہیں لیکن ادبی دنیا اور اس کی ادبی سرگرمیوں سے کوسوں دور رہے ہیں اس کے باوجود ان کی ریاضت اور کلاسک ادب کا مطالعہ بہت زیادہ ہے اسی گہرے مطالعہ اور مشق سخن کی وجہ سے ان کی شاعری میں نکھار اور پختہ کاری نظر آتی ہے

حفیظ اختر خود اپنے متعلق اپنی کتاب زرناب میں لکھتے ہیں کہ(میں شاعر ہوں یا نہیں یہ امتیاز کرنا ارباب ذوق اور آشنائے فن سخن کا کام ہے۔ خود مجھے شاعر ہونے کا ہر گز دعوی نہیں ہے۔ البتہ میں ایک حساس انسان ضرور ہوں اور میں یہ جانتا ہوں کہ میرا احساس ہی میری شاعری ہے)
یہ بات تو سب مانتے ہیں کہ جو شخص دوسروں کا احساس رکھنے والا اور ان کے دکھ درد کو اپنا دکھ سمجھنے والا اور پھر ان احساسات مشاہدات کو خوبصورت لفظوں میں پرو کر شاعری کی صورت پیش کرنے والا ہو وہ شاعر ہوتا ہے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ بے احساس اور بے شعور کو تو اپنی ذات تک کا ادراک نہیں ہوتا .

اس کو معاشرے کے مسائل اور بے بس مجبور لوگوں کا کیا پتا ہو گا غربت اور تنگ دستی میں زندگی کتنی تکلیف دہ ہوتی ہے اور ظالم حکمرانوں اور طاقت وروں کے درمیان کلمہ حق کیسے بلند کرنا ہے اس سے بے شعور لوگ نابلد ہوتے ہیں اس کے بعد عشق محبت ہجر وصال،موسم بہار یا موسم خزاں ہمارے رویوں اور زندگی پر کیسے اثرات مرتب کرتے ہیں اس کے بعد دل و دماغ کس کیفیت میں رقص کرتے ہیں.

اور کلی جب پھول بن کر اپنا حسن اور خوشبو بکھیرتی ہے تو تتلیاں کیسے دنیا سے بے خبر ہو کر ناچتی ہیں۔ ان موسموں اور کیفیات کا لطف اک شعور اور احساس والا ہی لے سکتا ہے بے احساس ایسی قیمتی کیفیات سے عاری ہوتا ہے اسی لیے شاعری صاحب شعور اور احساس رکھنے والا ہی کرسکتا ہے بے شعور اور مردہ احساس والے لوگ معاشرے پر بوجھ ہوتے ہیں اور ان کا وجود معاشرے کی تباہی کا باعث بنتا ہے .

سو صاحب شعور اور حساس طبیعت ہونا بڑی غنیمت ہے حفیظ صاحب اپنے شعور اور احساس کی وجہ سے اپنے قلب و ذہن کو منور کیے ہوئے ہیں اپنی ذات اور معاشرے کے گھمبیر مسائل کو اپنی شاعری کی صورت میں سپرد قلم کرتے ہیں اور ظالم کے آگے کلمہ حق بلند کرتے ہیں یہ بہت بڑا جہاد ہے جو یہ قلم کے ذریعے سرانجام دے رہے ہیں۔ آپ کہتے ہیں۔
جو ظلم کے خلاف بھی جنبش کناں نہ ہو
یا رب مرے دہن میں تو ایسی زباں نہ ہو
ان کو ادبی اصناف میں غزل سے عشق ہے۔ آپ اردو اور پوٹھوہاری میں غزل کہتے ہیں اور پھر یہ کہ آپ روایت پسند بھی ہیں اور اسی اسلوب اسی لفظیات سے غزل کی نوک پلک سنوارتے ہیں یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ ادبی حلقوں سے دور رہنے کے کچھ فائدے اور کچھ نقصانات بھی ہوتے ہیں.

فائدہ یہ کہ آدمی ایک کونے میں بیٹھ کر سنجیدگی کے ساتھ کلاسیک اور موجودہ دور میں جو کچھ لکھا جا رہا ہے اس کا مطالعہ کر سکتا ہے اور اپنی تخلیق کو مطالعہ سے نکھار سکتا ہے اور ادبی فن کو شاہکار بنا سکتا ہے اس کے برعکس ادبی حلقوں سے دوری کے کچھ نقصانات بھی ہوتے ہیں مثلاً ادبی جرائد تک رسائی نہ ہونے کے سبب اپنے کلام کی تشہیر نہ کرا سکنا اور ادبی منظر نامے سے دور رہنا وغیرہ۔

لیکن حفیظ صاحب کا معاملہ روایت سے عشق کا ہے یہ روایتی ادب کے سنجیدہ قاری اور لکھاری ہیں اور اس روایت کو آگے بڑھاتے ہوئے ایک اہم فریضہ سر انجام دے رہے ہیں جو قابل داد اور خراج تحسین پیش کرنے کے قابل ہے پھر جو ادبا روایت سے گہراتعلق رکھے ہوئے ہیں انکا اپنا مقام و مرتبہ ہے ان کی اپنی اہمیت ہے روایتی اور کلاسیک ادب ہماری بنیاد ہے پھر یہ ہماری پہلی اور اہم درس گاہ ہے.

اس سے انکار اور دوری اپنے کلاسیک ادب سے زیادتی ہے جو ادیب روایت سے جڑ کر جدت کی طرف سفر کرتا ہے وہ بڑا ادب تخلیق کر سکتا ہے حفیظ اختر راجہ روایت کو ساتھ لے کر جدت کی طرف محو سفر ہیں اور ان پر روایت کے گہرے اثرات مرتب ہیں۔ ہم کبھی روایت سے ہٹ کر ترقی نہیں کر سکتے۔ حفیظ صاحب اپنے تجربے میں کامیاب رہے ہیں ان کا اپنا ایک اسلوب ہے جو ان کی پہچان ہے اور یہ اسی اسلوب سے ادبی دنیا اور ادبی تاریخ میں زندہ رہیں گے

کبھی کبھار شاعر دنیا کے جال میں ایسے پھنس جاتا ہے کہ دنیا کا ہی ہو جاتا ہے اور دنیا کو ہی خدا سمجھ لیتا ہے لیکن دنیا اسے اپنے مطلب کی حد تک استعمال کرتی ہے اور چھوڑ دیتی ہے۔ بے سہارے کو مشکل وقت میں ایک آسرا مل جائے تو اسے اور کیا چاہیے۔ اس بات کا اظہار حفیظ صاحب کچھ ایسے کرتے ہیں
مجھ کو کسی کے ہاتھ نے پھر آسرا دیا
میں تو سمجھ رہا تھا خدا نے بھلا دیا
اکثر ایسا ہوتا ہے کہ جانے والا اپنی کوئی خاص نشانی چھوڑ جاتا ہے اور پھر اگر وہ محبوب ہو تو اس کی سانسوں کی خوشبو سے محسوس ہوجاتا ہے کہ وہ قریب سے گزرا ہے شاعر اپنے محبوب کی تعریف کے ساتھ اس کی پسند کا بھی اظہار کر رہا ہے

اور اس کے ساتھ دوسرا شعر بھی محبوب کی تعریف کے زمرے میں آتا ہے کہ وہ اپنے گھر کا راستہ نہیں بھولتا
خوشبو بتا رہی ہے وہ خوشبو پسند تھا
چپ کر کے جو ہماری گلی سے گزر گیا
گلیاں اگرچہ شہر کے اندر تھیں بے شمار
لوٹا مگر وہ جب بھی تو اپنے ہی گھر گیا
ابھی یہ شعر دیکھیں۔ شاعر اس میں کس ڈھب سے بغاوت کرتے ہوئے اچھا لگ رہا ہے۔ ایسے ادب کو مزاحمتی ادب کہا جاتا ہے
ہر گز نہیں قبول ہمیں اس کی منصفی
جس کو کھڑا پہاڑ بھی چلتا دکھائی دے

کیسے ہم اعتبار کریں اس کی بات پر
منصف تو غیر سے ہے سراسر ملا ہوا

حفیظ اختر کی شاعری میں روایت کے ساتھ ساتھ تازہ کاری بھی نظر آتی۔
یہ اشعار ملاحظ کریں

ملاح سے کہہ دو کہ چلے خوب سنبھل کر
کشتی کے لئے صاف نہیں آنکھ بھنور کی

سیکھیں گے حفیظ اس سے ہم آئینہ تراشی
یہ آئینہ تخلیق ہے جس آئینہ گر کی
جفیظ اختر راجہ صاحب کی کتاب زرناب پڑھنے کی طرف دعوت دیتی ہے اس کتاب میں بہت خوبصورت اشعار ہیں جو ہمارے معاشرے اور ہمارے رویوں کی ترجمانی کرتے نظڑ اتے ہیں۔ امید ہے کہ زرناب ادبی حلقوں میں اپنا اچھا تعارف کروائے گی اور اس کتاب کے تا دیر اثرات رہیں گے

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں