212

حاضر اللہ سائیں

شاہد جمیل منہاس/ارشد ملک ساری زندگی خود کو ڈھونڈتا رہا۔ بار بار خود کو جوڑتا اور توڑتا رہا۔ مگر تکمیل کے قریب پہنچ کر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوتا رہا۔مجھے یہ شخص جڑا ہوا اچھا کبھی نہ لگا۔مجھے جب بھی اس پر پیار آیا تو اُس وقت آیا جب ارشد کل جہانوں کے سردار اور خاتم النبین کی مدح سرائی کرتے ہوئے بکھر رہا ہوتا ہے اور اس کی روح اور جسم کے ذرے جب اس کی سُرخ آنکھوں میں قوس و قزح کی طرح قہر برپاکرتے ہیں تو میں اس وقت ارشد کی لامتنائی عقیدت پر قربان ہوتا جاتا ہوں۔ کہا جاتا ہے کہ اخروی زندگی میں بے شمار ایسے افرادجہنم کا ایندھن بنیں گے جو اس عارضی دُنیا میں بظاہر نیک اور پرہیزگار انسانوں کی طرح زندہ رہے ہوں گے یعنی دُنیا کی نظروں میں وہ ایک باکردار اور بہترین انسان ہو گا۔ مگر جب روز قیامت دُنیا ان کو اس حال میں دیکھے گی تو حیران اور ششدر ہو کر رہ جائے گی۔ جواب ملے گا کہ اس شخص کے باطن کو آپ نہیں جانتے ہیں اور پھر مزید کوئی وضاحت نہیں دی جائے گی۔ دوسری جانب اس دُنیا کے بہت سے افراد ایسے ہوں گے جو بظاہر عام سے دُنیادار افراد ہوں گے مگر جنت میں بہتریں مسکن اور پھولو کی سیج پر تشریف فرما ہوں گے۔ ان کے حوالے سے بھی لوگ سر پکڑ کر بیٹھ جائیں گے اور جواب ملے گا کہ آپ نے صرف ان کا ظاہر دیکھا ہے باطن سے ناواقف رہے۔ پھرمزیدکوئی وضاحت نہیں دی جائے گی۔ مگر دریافت کرنے والے سمجھ جائیں گے کہ دلوں کے حال چونکہ اللہ جانتا ہے لہذاوہ مطمئن ہو کر آگے نکل جائیں گے۔ ہر انسان خطا کا پُتلا ہے اور خامیوں سے بھرا پڑا ہے۔ لہذا ارشد ملک بھی میری طرح بے شمار خامیوں کا سراپاہے مگر ایک خوبی نے اس کی تمام خامیوں کو ڈھانپ لیا۔ میں نے دیکھاکہ ارشد ملک جب کسی محفل میں اللہ کے آخری اور سب سے پیارے نبیؐ کی تعریف اشعار کی صورت میں بیان کرتا ہے تو اُسکی آنکھیں بارش برس جانے کے بعد آسمان کو قوس قزاح کی طرح روشن کر رہی ہوتی ہیں مگر کبھی غور کیجئے گا یہ شخص اندر سے مکمل طور پر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو رہا ہوتا ہے۔ کاش ایسا ٹوٹنا ہم سب کو نصیب ہو جائے۔جب آپ یہ اشعار سناتے ہیں تو بھری محفل میں آپ کے ہاتھ چومنے کو جی چاہتا ہے۔
وہ ایک دن سوئے طیبہ۔۔۔۔۔۔۔۔ جو میرا دل گیا تھا
نظر کو جس کی تمنا تھی مجھ کو مل گیا تھا
دیارِ صدّق میں یونہی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مقدم نہیں میرا
میں ایک راہ کی بیعت میں مستقل گیا تھا
سجا ہوا یہ جو تعویز۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔دل پہ ہے ارشد
ہے نقشِ پائے محمدؐ جو مجھ کو مل گیا تھا
یہ شخص افراتفری والی زندگی میں رہ کر بھی طیبہ کی گلیوں میں آقاؐ کے جلوؤں کی تلاش میں مارا مارا پھرتا ہے۔ حدیث پاکؐ کا مفہوم ہے کہ میرے نبیؐ اگر میں آپ کو تخلیق نہ کرتا تو اپنا ربّ ہونا بھی ظاہر نہ کرتا۔ ارشد ملک کا حج کا سفر نامہ ”حاضر اللہ سائیں“ پڑھتے ہوئے چاروں
طرف نور کی کرنیں رواں دواں ہیں اور ہر طرف ارشد ملک کی اللہ اور رسولؐ کے لیئے بے پناہ عقیدت و محبت جگمگ جگمگ کرتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ اس سفر نامے کو پڑھتے ہوئے یہ محسوس ہوتا ہے کہ ارشد ملک تم نہ جانے کہاں کہاں بظاہر نبیؐ کی محبت کی تکمیل کے لیئے تھک کر رُکاہوگا۔ نہ جانے کہاں کہاں بظاہر ہارا ہوگامگر حقیقت میں کامیاب ترین ہیں آپ۔ بظاہر ہر وقت ہنستا کھیلتا اور مسکراتا ہوا یہ شخص اپنے درویشا نہ وجود کی تلاش میں کونے کھدروں میں ریسرچرکی طرح کھوج لگاتا رہا۔ ہاتھ لہو لہان وجود ریزہ ریزہ مگر دل ہے کہ مانتا نہیں کسی صورت بھی۔ میں نے ایک دفعہ جب ارشد ملک کو نعتیہ اشعار سُنا کر ایک محفل میں پسینے میں شرابور پایا تو اسی وقت میں جان گیا تھا کہ یہ آدمی ریاکار ہر گز نہیں ہے۔ اپنی عبادتوں کا پرچارنہیں کرتا بلکہ خاموشی سے زندگی کے دن گزارنا چاہتا ہے۔ ارشد ملک آپ نے ”حاضر اللہ سائیں“ لکھ کر خاموشی کے تمام بندھن توڑ دیئے۔ ارشد ملک آپ اس خول سے باہر نکل کر سامنے آ چکے ہیں۔ میں یہ تو نہیں جانتا کہ آپ کے اس طرح اچانک نمودار ہونے سے آپ کو کتنا فائدہ ہوا ہو گا۔ مگر میں یہ ضرور جانتا ہوں کہ اس ظالم سماج میں انگنت افراد عشق رسولؐ کی شمع جلانے والوں کی فہرست میں شامل ہوگئے ہونگے اور تاقیامت ہوتے رہیں گے۔ یاد رہے کہ جو الفاظ کاغذ پر منتقل ہو جاتے ہیں وہ قیامت تک زندہ رہتے ہیں یاشائد اُس کے بعد تک۔ کیونکہ ”حاضر اللہ سائیں“ پڑھنے کے بعد یہ تحریر دل کی تختی پر لکھی جارہی ہے۔ اور جو الفاظ دل کی تختی پر تحریر ہوجائیں انہیں سات سمندروں کا پانی بھی نہیں مٹا سکتا۔سیّد عارف مرحوم نے کیا خوب فرمایا۔
لوح وقت پر دیکھیں کس کا نام رہتا ہے
تم دیئے بجھاتے ہو ہم دیئے جلاتے ہیں
اچھا انسان سفید رنگ کی طرح ہوتاہے۔ سفید رنگ میں کوئی بھی رنگ ملاؤ ایک نیا رنگ بن جاتا ئے گا مگر دُنیا بھر کے سارے رنگ ملا کر بھی سفید رنگ نہیں بن سکتا۔ کچھ لوگ اس کائنات میں سفید رنگ کی طرح ہوتے ہیں جو پھولوں کی لڑیاں پروتے پروتے دُنیا میں رنگ بکھیرتے بکھیرتے اپنا رنگ تبدیل کیئے بغیر چپکے سے چلے جاتے ہیں۔ پھر ان کے جانے کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ وہ کیا تھا اور ہم کیا ہیں۔ حاضر اللہ سائیں تحریر کر کے ارشد نے تیل کے بغیر جلنے والا ایک چراغ روشن کر دیا جو اس لیئے بجھ نہ پائے گا کیونکہ وہ رحمت خداوندی سے روشن ہوا ہے۔ یہ سفر نامہ لکھ کر ارشد ملک ربّ رحیم سے التجائیں اور تمنائیں کر تے ہوئے محسوس ہو رہا ہے۔ارشد ملک ایک بہترین شاعر اور ادیب ہیں۔ انکی درجنوں کتب مارکیٹ میں موجود ہیں مگر حاضر اللہ سائیں کا کوئی مقابل نہیں۔بے شمار سفر نامے اشاعتی مراحل کی زینت بنے اور انتہائی مقبول ہوئے۔ مگر ارشد ملک کا یہ سفر نامہ سب سے بڑے مصنف کے سب سے بڑے ناول کی طرح اپنا سفر شروع کرتا ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے کائنات کی وسعتوں کو اپنے اندر سموتا ہوا آگے نکل جاتا ہے یعنی مزید طوالت اختیار کرتا جاتا ہے۔ مگر یہ سفر نامہ جوں جوں بالغ ہوتا جا رہا ہے ارشد ملک خود کو چھوٹا محسوس کر رہا ہے۔ در اصل خود کو چھوٹا محسوس کرنے والے ہی بڑے ہوا کرتے ہیں۔ ارشد ملک آج آپ واقعی زہنی بڑھوتری کے اعتبار سے کسی مینار سے کم نہیں۔ یہ سفر نامہ اُردو ادب میں ایک ممتازترین سفر نامہ ہے۔ جو آنے والے دنوں میں اقوام عالم کی یونیورسٹیوں میں ایم فل اور پی ایچ ڈی کے مقالات میں حوالہ جات کے طور پر مددگار ثابت ہوگا۔ اسلام اور دین کی اشاعت میں اس کا کوئی ثانی نہیں ہوگا۔ آپ کی اس کاوش کی بنا پر ماضی کے تمام تر گناہ دھل گئے ہوں گے۔ کیونکہ ایسی تحریرخون جگر دے کر منظر عام پر آتی
ہیں۔ ارشد ملک آپ ٹوٹے تو مجھے بہت اچھا لگا۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں