حاجی محمد شریف مرحوم ‘نابغہ روزگار شخصیت

آپ کی پیدائش 1932میں ڈھوک رکھ میں ہوئی۔پیدائش کے بعدبہت جلد یتیم ہو گئے مگر اس کے باوجود آپ نے گھر کے کام کاج کیساتھ ساتھ تعلیم کا سلسلہ بھی جاری رکھا اور 1951میں لاہور بورڈ سے بطور پرائیویٹ امیدوار میٹرک کا امتحان فرسٹ ڈویژن میں پاس کیااور گھر والوں کو اطلاع دہئے بغیر پاکستان ائیر فورس میں شمولیت اختیار کر لی اور پیشہ ورانہ تربیت کیلئے راولپنڈی سے کوہاٹ روانہ ہوگئے۔وہاں سے دو ماہ بعد بذریعہ ڈاک گھر والوں کو اپنی “نوکری” کے بارے میں اگاہ کیا۔پاکستان ائیر فورس میں 32سال تک اپنی خدمات سرانجام دیتے رہے۔1965 اور 1971کی جنگوں میں بھی حصہ لیا۔ایئرفورس میں آپ کا ٹریڈ ایم ٹی فٹر تھا اس لئے جنگی جہازوں کی اڑان سے پہلے ان کی دیکھ بھال اور تیاری کی ذمہ داری انکے ذمے تھی۔1979میں ڈیپوٹیشن پر سعودی عرب روانہ ہو گئے اور عرصہ چار سال تبوک بیس پر سعودیہ آئیر فورس میں اپنے فرائض سر انجام دہئے۔اس دوران ایک ایسا واقعہ پیش آیا جو ایمان کو تازہ کر دیتا ہے۔ہوا یوں کہ آپ کی والدہ ماجدہ علیل ہو گئیں اور مرگ بستر پر تھیں۔ان کی آخری خواہش تھی کہ “شریف”کو میرا پیغام پہنچادو کہ نوکری چھوڑ کر گھر چلا آئے،میں اسے دیکھ کر ٹھیک ہو جاؤنگی۔چنانچہ بذریعہ ٹیلیفون،جب آپ کو پتہ چلا کہ والدہ کی یہ خواہش ہے تو آپ نے ایک سال ڈیپوٹیشن کو خیر آباد کرنے کا فیصلہ کر لیا۔اس موقع پر دوستوں نے منع کیا کہ آپ کیوں 32ہزار تنخواہ چھوڑ کر واپس ملک جانا چاہتے ہوتو جواب تھا کہ میری والدہ کا حکم ہے جس کو میں کسی صورت ٹھکرا نہیں سکتا جس کے بعد آپ سعودی عرب سے واپس گھر آ گئے جس کے بعد آپ کی والدہ ماجدہ پانچ برس تک باحیات رہیں۔عربی،انگلش،اردو،پنجابی اور فارسی زبانوں پر مکمل عبور حاصل تھا۔آئیر فورس سے ریٹائرمنٹ کے بعد دس سال تک ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ میں بطور ٹیکنیکل ٹیچر اپنے تدریسی فرائض سر انجام دیتے رہے۔ریٹائرمنٹ کے بعد اپنے “حجرے” میں صبح کے وقت بچوں اور بچیوں کو دینی تعلیم دیتے اور کم و بیش بیس پچیس برس تک یہ فریضہ سر انجام دیتے رہے اور گاؤں کی مسجد میں فی سبیل اللہ امامت بھی کروائی۔تلاوت کرتے وقت اکثر رونا شروع کر دیتے (اس کی وجہ کہ وہ عربی زبان اور اس کے معانی کو سمجھتے تھے)اور یہی حال تب بھی ہوتا جب آپ کے سامنے حضورﷺ،اصحاب اکرام،اہل بیت،اولیا اللہ کا ذکر کیا جاتا۔آپ کے گاؤں اور گردونواح میں بجلی جیسی سہولت کا تصور تک نہ تھا۔آپ نے اپنے بڑے بیٹے سے کہاکہ” راولپنڈی جاؤ اور جنریٹر خرید لاؤ،جس کے جواب میں بیٹے نے کہا کہ ا بو ہم جنریٹر چلائیں گے اور گاؤں والے ہمیں دیکھیں گے،کیا یہ اچھا لگے گا کیوں نہ بجلی ہی لگوا لی جائے”چنانچہ چوہدری سلطان محمود (مرحوم) جو اس وقت ممبر ضلع کونسل تھے اور صوبیدار افضل حسین تابعدار کونسلر کے پاس گئے اور اپنے گاؤں کیساتھ موضع سہوٹ بدہال میں بجلی کی سہولت فراہم کر وادی۔پھر آپ سوشل ورک کی طرف متوجہ ہوئے اور گاؤں کی سڑک،ٹیلیفون، گلیاں غرض فلائی کاموں میں حصہ لینا شروع کر دیا۔ڈھوک رکھ میں تعلیمی انقلاب لانے میں اہم کردار ادا کیا۔خواندگی کی شرح آپ کی ہی مرہون منت ہے۔آج ڈھوک رکھ ایک ماڈل گاؤں کا درجہ رکھتا ہے جس کی ڈاکومنٹری بی بی سی ریڈیو اور ٹی وی سے بھی نشر ہو چکی ہے۔آپ کی ذاتی زندگی بڑی روشن تھی۔اپنی اولاد میں دو بیٹوں اور دو بیٹیوں کو اعلی تعلیم دلوائی اور محکمہ تعلیم کا شعبہ ان کیلئے پسند کیا۔اس محکمہ میں رزق کیساتھ ساتھ خدمت خلق بھی ہے۔ آپ کی روٹین میں صبح نماز کے بعد قرآن پاک پڑھنا اور دوسروں کو پڑھانا اور ہر وقت وظائف پڑھتے نظر آتے۔زندگی میں اپنے آپ کو مصروف رکھا،فارغ نہیں بیٹھتے تھے،فضول گفتگو اور یاوہ گوئی سے مکمل گریز کرتے تھے۔چھوٹوں پر شفقت اور بڑوں کا احترام کرتے، گفتگو مختصر مگر جامع ہوا کرتی تھی اور احترام کا دامن نہ چھوڑتے۔اللہ کے فضل و کرم سے آپ کے چہرے پر ہلکی سے مسکراہٹ رہتی تھی۔گفتگو میٹھی اور تہذیب کے دائرے میں رہ کر کرتے تھے۔ 14اگست 1984کو صدر مملکت جنرل ضیاء الحق کی ہدایت پر گورنر پنجاب غلام جیلانی خان نے ناظمین صلوۃ مقرر کئے تو حاجی محمد شریف کو ناظم صلوۃ مقرر کر دیا گیا۔آپ بہت اچھے مقرر تھے جب تقریر کرتے تو سماں باندھ دیتے یہاں تک کہ سابق ایم پی اے چوہدری محمد خالد مرحوم اپنے تقریر سے پہلے حاجی صاحب سے کہتے کہ آپ تقریر کریں پھر میں کرونگا۔پاکستان پیپلز پارٹی سے وابستہ رہے اور خوب سماجی و فلاحی کام کروائے۔آپ بڑے با صلاحیت انسان تھے،دفاتر میں بڑے سے بڑے آفیسر سے ملنے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہ کرتے اور جامع گفتگو سے اپنا گرویدہ بنا لیتے تھے۔آپ نے “وینس ویلفیئر ایسوسی ایشن “کی بنیاد رکھی اور پہلا اجلاس جو کلر سیداں میں حاجی محمد شریف پلازہ میں منعقدہوا،اس میں باضابطہ ویلفیئر ایسوسی ایشن کی باڈی تشکیل دی گئی جس میں راجہ اظہر وینس کنوہا کو صدر اور راجہ محمد سعید (نمائندہ جنگ) کو پریس سیکرٹری نامزد کیا گیا جو کہ تا حال پریس سیکرٹری ہیں۔آپ کی کوشش ہوتی تھی کہ کسی نہ کسی پلیٹ فارم سے انسانیت کی فلاح کا کام جاری رکھا جائے کیونکہ آپ ایک قادر الکلام شاعر بھی تھے اس لئے اپنی گفتگو اور تقریر میں شعر کا “تڑکا”ضرور ہوتا۔ایک دفعہ حاجی غلام ظہیر صاحب ناظم اعلی کا الیکشن لڑ رہے تھے،آپ کے پینل میں چوہدری وحیدامجد (مرحوم) جنرل کونسلر کا انتخابی نشان “کنگا”تھا توآپ نے کنوہا کے مقام پر ایک جلسے میں خطاب کیا اور ایک نظم پڑھی جس کا بول تھا “کنگاذلف سنوارے گا”اس نظم کا یہ اثر ہوا کہ حاجی غلام ظہیر صاحب نے بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کر لی۔آپ کی شاعری مقصدی شاعری ہوا کرتی تھی جب بڑی جدو جہد کے بعد ڈھوک رکھ کی سڑک بنی تو آپ نے اکتوبر 2004کے استقبالیہ میں جو نظم لکھی اس کا ایک بند ملاحظہ فرمائیں (عبدالحمید مرزا مرحوم تحصیل ناظم کیلئے بطور خاص لکھی گئی تھی، “ایو بستی بڑی پرانی اے،کوئی رستہ جوع نہ پانی اے،مشکل وچ باسی جیندے سن،بس صبر پیالہ پیندے سن،چوہدری خالد آئے سن،کچ مسئلے حال کرائے سن،حق سچ نال کوئی کھلویا نہ،حل راہ دا مسٗلہ ہو یا نہ،بہو لیڈا آندے جاندے رے،پر جھوٹے لارے لاندے رہے،کوڑیاں دلوں بھلاسٹیا، اساں قائد نواں بنا سٹیا،رکھ روڈ نوں پکا کر ا سٹیا،ایناں وعدہ توڑ نبھا سٹیا”۔وینس ویلفیئر ایسوسی ایشن کے تحت جہانگیر ویلفیئر ٹرسٹ کا وجود بھی عمل میں لایا۔مرحوم کیلئے آپ نے ایک نظم لکھی جس کا ایک بند حاضر خدمت ہے۔۔۔”پی پی کا علم اونچا اڑاتا چلا گیا،روشنی کے دیوے جلاتا چلا گیا، انتھک اور بے لوث تھا اجرت سے بے نیاز، تھا اللہ پر بھروسہ وہی سب کا کار ساز،رفاعی کام سارے
کراتا چلا گیا،روشنی کے دیوے جلاتا چلا گیا”۔ بنی نوع انسان کو خواب غفلت سے جگانے کیلئے آپ نے لکھا۔۔۔۔۔”دنیا فانی چاردیہاڑے،توں کیوں ایڈے پیر پسارے،بجسن جدوں کوچ نقارے،ٹٹسن رشتے ناطے سارے،غافل ستیا جاگ سویرے،کر سامان
ہنھیرے نیھرے۔۔۔۔۔۔۔(موتو قبل انت موتو) (الحدیث)
گویا آپ نے مختلف انداز میں انسانیت کی اصلاح اور بھلائی کا کام کیا جو کہ ایک عظیم شخص کی نشانی ہے۔آپ نے 6 ستمبر 2020کو وفات پائی اور آخر دم تک ہوش و ہواس میں رہے اور باتیں کرتے رہے۔ اپنی زندگی میں کسی کو تکلیف یا دکھ نہ دیا بلکہ (خیر الناس من ینفع الناس)کے مصداق زندگی گزاری اللہ تعالی ان کے درجات بلند فرمائے اور جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے۔آمین

اپنا تبصرہ بھیجیں