columns 180

جہیز اور دوسری غیر ضروری رسومات

زندگی میں بہت کم واقعات ایسے آئے کہ جب میں نے لکھنا شروع کیا ہو اور میرے قلم نے میرا ساتھ نہ دیا ہو، میرے ہاتھ کانپ رہے ہوں، میرے ذہن میں موجود الفاظ صفحہ قرطاس پر منتقل ہونے سے گریزاں ہوں۔ کچھ سمجھ میں نہ آرہا ہو کہ کہاں سے لکھنا شروع کروں اور کہاں پر جاکر اختتام کروں۔ ہم بہت سے مقامات پر آکر رک جاتے ہیں، ہم جانے انجانے میں کسی کی زندگی کے خاتمے کا باعث بن جاتے ہیں۔ ہم ایک شخص کو اس نہج پر لے آتے ہیں کہ وہ اس انتہائی قدم پر مجبور ہوجائے کہ اپنی زندگی کا خاتمہ کردے۔اس سلسلے میں ہر شخص اپنا اپنا حصہ ڈالتاہے۔ آج میں خاص طور پر والدین سے بات کرنا چاہتا ہوں کہ خدارا اپنی بیٹیوں کو کسی بھی شخص کی زوجیت میں دینے سے پہلے اچھی طرح معاملات کا باریک بینی سے جائزہ لیں اور اس کے بعد بھی اپنی بیٹی کو یہ کہیں کہ ہم اس شخص کو انسان سمجھ کر تمہیں اس کے ساتھ بیاہ رہے ہیں اگر یہ حیوان یا شیطان نکل آتا ہے تو ہمارے گھر کے دروازے تمہارے لیے ہر وقت کھلے ہوں گے۔ میں یہ بات اسلئے کہہ رہا ہوں کہ بیٹیوں کو بیاہتے وقت یہ کہاجاتا ہے کہ وہاں تمہاری ڈولی جارہی ہے تو اس گھر سے تمہاری میت ہی اٹھنی چاہیے، خواہ وہ تمہیں جس بھی حال میں رکھیں تمہیں گزارا کرنا ہوگا۔ اسی قول کا پاس رکھتے ہوئے وہ بیچاری ذہنی مریضہ بن جائے یا گھٹ گھٹ کر اپنی ساری زندگی گزار دے یا پھر اپنی زندگی کا اختتام کر بیٹھے۔ لیکن اگر اسے ماں باپ کا ساتھ ملے گا تو وہ حالات کا مقابلہ کرنے کے قابل ہوگی، اسے ایک سہارا ہوگا کہ میرا ساتھ دینے والے موجود ہیں۔ اب آتے ہیں جہیز کی طرف کہ ہم اسکا کیسے قلع قمع کرسکتے ہیں۔ سب والدین کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ وہ اگر اپنی بیٹی کو بیاہ رہے ہیں تو ضروریات زندگی کی اشیاء اس کو دیں اور اس میں کوئی بری بات بھی نہیں ہے۔ لیکن اگر لڑکے والوں کی طرف سے یہ کہا جائے کہ ہمیں فلاں چیز بھی چاہیے اور فلاں بھی، طرح طرح کی فرمائشیں کی جائیں، تو اس رویے کو ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر میری مانیں تو کبھی بھی ایسے خاندان کے حوالے اپنی بیٹی نہ کریں جو شروع میں ہی ایسا کریں۔یہاں میں اپنے نوجوانوں سے یہ کہوں گا کہ خدارا اپنے والدین کو سمجھائیں کہ یہ اچھی چیز نہیں ہے اور آپ سب اس پردلیرانہ اقدام اٹھائیں، ہم نے اپنے آپ کو مختلف دوسری رسومات میں گھیر رکھا ہوا ہے جو مکمل طور پر غیر ضروری ہیں۔اگر کسی پیسے والے شخص کا رشتہ آجائے تو دوسری تمام چیزوں کو نظر انداز کردیا جاتا ہے اگر وہ اخلاقی طور پر بہتر نہ بھی ہوتو کہا جاتا ہے کہ اللہ ہدایت دیگا۔اور اگر کسی غریب شخص کارشتہ آجائے تو استخارہ اور دوسری چیزیں یاد آجاتی ہیں، چاہے وہ شخص اخلاقی طور پر بہت اچھا ہی کیوں نہ ہو۔اب یہاں ایسا بھی نہیں کہ میں پیسے کو برا کہہ رہا ہوں،والدین کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ انکی بیٹی جہاں جائے وہ مالی طور پر مستحکم ہوں تاکہ اس کیلئے آسانیاں پیدا ہوسکیں ایسا سوچنا برا نہیں ہے لیکن پیسہ ہی سب چیزوں اور خوشیوں کا ضامن نہیں۔ یہاں بس یہی کہوں گا کہ اگر ہدایت اللہ نے دینی ہے تو پیسہ بھی رب تعالیٰ نے ہی دینا
ہے۔25فروری کو ایک ویڈیو منظر عام پر آئی جسے انڈیا (احمد آباد) کی ایک عائشہ نامی لڑکی نے خودکشی سے کچھ دیر قبل ریکارڈ کیا اور جس میں اس نے کہا کہ اللہ سے دعا کروں گی کہ مجھے آج کے بعد کبھی انسانوں کی شکل نہ دکھائے۔میں اپنے خدا سے ملوں گی۔اور یہ جملہ کہتے وقت اسکی آنکھوں میں جو چمک،یقین اور خوشی تھی، کم سے کم وہ سب دیکھ کر میں یہ مان ہی نہیں سکتا کہ اسکی ملاقات اللہ سے نہیں ہوئی ہوگی۔ پتہ نہیں اس نے اپنے رب سے کیا کیا شکایتیں کی ہوں گی، یہ ایک واقعہ بیشک ہمارے معاشرے میں وقوع پذیر نہیں ہوا لیکن اپنے ارد گرد دیکھیں کہ اس سے ملتے جلتے کتنے واقعات رونما ہورہے ہیں، کچھ سامنے آجاتے ہیں اور کچھ اندھیرے گڑہوں میں گر جاتے ہیں۔ہمیں اشرف المخلوقات اسلئے بنایا گیا تھا کہ ہم دوسروں کا خیال رکھیں لیکن ہم شاید اس کا معنی کچھ اور سمجھ بیٹھے ہیں، ہمیں دوسروں کی زندگیاں آسان بنانے کا کہا گیا تھا لیکن آج ہم اس کوشش میں ہوتے ہیں کہ کب ہمیں کوئی موقع ملے اور ہم کسی کی زندگی میں روڑے اٹکائیں۔خدارا ایسا کرنے سے اجتناب کریں کیونکہ آج اگرآپ ایسا کرینگے تو کل ایسا آپ کیساتھ یا آپکے پیاروں کیساتھ ہوگا۔ لہٰذا کوشش کریں کہ اگر آپ کسی کی زندگی میں آسانیاں پیدا نہیں کرسکتے تو کم از کم اسے دکھ دینے کا باعث نہ بنیں۔ اپنی ذات کیساتھ ساتھ اپنی دھرتی ماں کا بھی خیال رکھیں۔ پاکستان زندہ باد

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں