154

جہالت کی انتہا

ہم کون ہیں؟ ہم کس مزہب سے تعلق رکھتے ہیں؟کس خطے میں رہتے ہیں؟ ان سب سوالوں کے جواب ہر خاص کو معلوم ہیں۔مگر افسوس صد افسوس کہ ہم اسلامی ملک میں رہتے ہوئے انسانیت کی خدمت کے نام پہ ایسی واہیات اور گھٹیا چیزیں ایجاد کر لیتے ہیں، جن پہ غیر مسلم بھی حیرت سے کنگ رہ جاتے ہو گے۔اسلاممی جمہوریہ پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں خدمت خلق کی آڑ میں
“Pakistan’s First Human Milk Bank”
بنا کر اسلامی قوانین پہ حملہ کرنے والے بھی اسی سر زمین کے باشندے ہیں۔افسوس ہوتا ہے یہ دیکھ کر کہ فلسطین لٹ چکا، وہاں بچوں کو شہید کیا جا رہا تب کیوں نہیں خدمت خلق کا خیال آیا؟ ہزاروں بچے بے گھر ہیں، چھوٹی عمر میں سڑکوں پہ کام کر رہے،

کیا ان کو سہولیات دینا خدمت خلق کے زمرے میں نہیں آتا؟ یا پھر یہ نام نہاد مسلمان عورتوں کا دودھ بیچنے کو ہی خدمت خلق سمجھ بیٹھے ہیں؟ جہالت کی انتہا ہے۔ ایسے خیالات تو غیر مسلم کو بھی نہیں آئے ہو گے، حالانکہ غیر مسلم ممالک میں بے حیائ عروج پر ہے مگر ایسا کچھ نہیں سنا کہ ماؤں کا دودھ بک رہا ہو۔یہ عمل ہر پہلو سے قابل مذمت ہے۔

اسلام کے مطابق ایک ہی ماں کا دودھ پینے والے رضائ بہن بھائ ہوتے ہیں اور ان کی آپس میں شادی بھی ممنوع ہے۔ تو پھر “ملک بینک” کو بنانے والا صاحب علم بتائیں کہ اس میں فروخت ہونے والا ایک ہی ماں کا دودھ جتنے بچے پیئیں گے کیا وہ رضائ بہن بھائ نہیں ہو گے؟ کیا اس بات کا ریکارڈ رکھا جائے گا کہ کس بچے نے کس ماں کا دودھ پیا؟ کیا ان بچوں کا شادی سے پہلے ڈی این اے لیا جائے گا؟

اگر نہیں تو کیا ان کی آپس میں شادی حرام نہیں ہو گئ؟ سوچنا چائیے کہ ہم آج کہاں کھڑے ہیں؟ ہمیں اسلام کے بارے میں کتنا علم ہے؟ قائد ملت نے 13جنوری 1948 کو اسلامیہ کالج پشاور کے طلبہ سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:”ہم نے مطالبہ پاکستان محض زمین کا ٹکڑا حاصل کرنے کے لئے نہیں کیا تھا بلکہ ہم ایسی تجربہ گاہ کا حصول چاہتے تھے

جہاں اسلام کے اصولوں کو آزمایا جا سکے۔“ جس ملک کو اسلامی اصولوں کی پیروی کے لئے حاصل کیا گیا وہاں پر ایسی واہیات اور شرم ناک باتیں سننے کو مل رہی ہیں۔یہ عمل ہر لحاظ سے قابل مذمت ہے۔ میں درخواست گزار ہوں کہ اس معاملے کی حساسیت کو سمجھتے ہوئے اس کو روکا جائے اور میری تمام مکتبہ فکر کے علماء، چیف جسٹس آف پاکستان، شریعت کورٹ سے اپیل ہے کہ اس پہ سخت ایکشن لیا جائے اور اس مہم میں شامل افراد کو بھی سخت سے سخت سزا سنائی جائے

تاکہ آئندہ کوئ اس قسم کی حرکت کرنے سے باز رہے۔ میری عوام الناس سے بھی گزارش ہے کہ اس معاملے کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے اپنی بساط کے مطابق آواز اٹھائیں۔ آج کا دور سوشل میڈیا، پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا کا ہے۔ تو اس ٹیکنالوجی کا استعمال کریں۔اس گھٹیا حرکت پہ آواز اٹھانا اپنی آنے والی نسلوں پہ ان شاءاللہ احسان عظیم ہو گا۔اللہ تعالیٰ ہم سب کو دین پڑھنے سمجھنے سیکھنے اور پھیلانے کی توفیق عطا فرمائے آمین ثم آمین

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں