ثقافت

ثقافت سے مراد انفرادی اور اجتماعی طریقہ کاروں کی رہنمائی کے لئے نسل در نسل منتقل ایک معاشرتی گروہ کے مادی اور روحانی سامان کا مجموعہ ہے اس میں زبان‘ عمل‘طرز زندگی‘ رواج‘روایات‘عادات‘ اقدار‘ اوزار اور علم شامل ہیں یا اسے یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ معاشرے کا ایسا پہلو جس کا تعلق ان انسانی سرگرمیوں کے ساتھ ہے جو انسانی معاشرے میں انجام پاتی ہیں لیکن عام طور پر ثقافت کو مہذب معاشرہ کی اصطلاح میں سمجھا جاتا ہے کسی بھی قوم کی ثقافت کے لیے ضروری ہے کہ وہ ایسی اقدار پر قائم ہو جس کا تعلق عقیدہ فکر طرزِزندگی اور زندگی کے مقصد کے تعین کے ساتھ ہو اس طرح ثقافت روحانی نفسیاتی اور معاشرتی اثاثہ قرار پاتی ہے تاہم اگر ثقافت مثبت معاشرتی اقدار کو جنم نہ دے تو ایسی ثقافت کو کھوکھلی یا ادھوری ثقافت کہا جائے گا اس لیے ضروری ہے کہ ثقافت معاشرے میں اقدار کی صحیح صحیح اور موثر ترجمانی کرے جو معاشرے کی ترقی اور نشوونما کو منظم کرے اگر ثقافت بنیادی اقدار سے خالی ہے تو اس کے اثرات معاشرے پر ہوں گے اور وہ مختلف بحرانوں کا شکار ہوگا ابن خلدون اپنی شہرہ آفاق کتاب مقدمہ ابن خلدون میں رقم طراز ہیں دنیا میں عروج و ترقی حاصل کرنے والی قوم ہمیشہ اعلیٰ ترین اخلاق کی مالک ہوتی ہے جبکہ برے اخلاق کی مالک ہمیشہ زوال پزیر ہوتی ہیں اسلامی ثقافت خدائے واحد کے آگے سر بسجود ہونے اور صرف اسی سے اپنی حاجات طلب کرنے کا درس دیتی ہے مرنے کے بعد دوبارہ جی اٹھنے پر ایمان سے جواب دہی کا تصور پیدا ہوتا ہے اسلام نے بھائی چارہ کی ایسی مثال قائم کی کہ تمام امت کو جسد واحد قرار دے دیا مساوات اور برابری کا ایسا نظام وضع کیا فرمایا کہ اگر مجھ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیٹی فاطمہ علیہ السلام بھی چوری کرتی تو میں اس کا بھی ہاتھ کاٹ دیتا عدل و انصاف کا ایسا معیاری اور بے خوف نظام قائم کیا کہ خود خلیفہ وقت قاضی کی عدالت میں پیش ہوا جہالت کی رسوم کو نیست ونابود کرنے اور عورت کو عزت و وقار دینے کے لیے فرمایا جس نے دو بچیوں کی اچھی تربیت کی وہ جنت میں (دو انگلیوں کا اشارہ فرمایا ایسے) میرے ساتھ ہو گا اسے جائیداد میں حصہ عطا کیا اور جنت ماں کے قدموں کے نیچے ہے فرما کر اسے عزت و وقار کی بلندیوں پر پہنچا دیا والدین کی خدمت اور اطاعت کا اتنا سخت حکم دیا کہ فرمایا سوائے خدا کا شریک بنانے کے ان کا ہر حکم مانو (یعنی اگر وہ شرک کا حکم دیں تو نہ مانو باقی ہر حکم مانو) اور ان کے آگے اُف تک نہ کرو۔صاف ستھرا اور کھلا‘(تاکہ اعضاء نظر نہ آئیں) لباس زیب تن کرو اور عورتوں کو اپنے جسم کو مکمل ڈھانپ کر رکھنے اور بناؤ سنگھار صرف اور صرف اپنے شوہروں کے لئے کرنے کا حکم دیا نیم برہنہ لباس زیب تن کرنے سے سختی سے منع فرمایا اور مردوں کو نگاہیں نیچی رکھنے کا حکم دیا اور باہمی اختلاط سے منع فرمایا مرد کو عورت اور عورت کو مرد کی مشابہت اپنانے سے بھی سختی سے منع فرمایا مردہ جسم کو بھی عزت وتکریم عطا کی کہ اس کی بے حرمتی نہ کی جائے بلکہ عزت وتکریم سے غسل اور کفن دے کر دفن کیا جائے۔ ہر مرد و زن پر تعلیم کو فرض قرار دیا اسی ثقافت کے پروردوں نے دنیا میں تعلیمی انقلاب برپا کیا اور ہر سائنسی علم کی بنیاد رکھی پاکیزہ اور حلال کھانے کا حکم دیا جھوٹ‘ غیبت‘حسد‘ چغلی سے بچنے کی تلقین کی مساکین اور غرباء کو سینے سے لگایا رشتے داروں سے باہمی صلہ رحمی اور بھائی چارے کا درس دیا غریبوں کو اپنے پاس بٹھایا اس طرح امیر و غریب کے فرق کو مٹا دیا جب یہی تعلیمات دنیا تک پہنچیں تو لوگ جوق در جوق دائرہ اسلام میں داخل ہونے لگے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور
میں اسلامی تعلیمات وثقافت ہندوستانی پسماندہ معاشرے تک تیزی سے پہنچنا شروع ہوئیں یہ معاشرہ ذات پات میں بٹا ہوا تھا یہاں عورتیں عزت و وقار سے محروم تھیں غریب و نادار طبقات ظلم وستم کی چکی میں پس رہے تھے شودر جو ان کے نزدیک پست ترین طبقہ ہے اس سے تو جانورں سے بھی بد تر سلوک روا رکھا جا رہا تھا اسلامی ثقافت ان لوگوں کے لیے کسی نعمت عظمیٰ سے کم نہیں تھی اسلامی ثقافت نے ان محروم طبقات کے لیے ایک نجات دہندہ کا کام کیا اور یوں پسماندہ طبقات آغوش اسلام میں پناہ لینے لگے یوں ہندو ثقافت نے اسلامی ثقافت کے آگے گھٹنے ٹیک دیئے یہ معاشرہ بظاہر تو اکٹھا تھا لیکن ثقافتی لحاظ سے دو حصوں میں منقسم ہو چکا تھا جس کے بارے میں البیرونی نے لکھا ہے کہ یہ لوگ صدیوں سے اکھٹے رہتے چلے آ رہے ہیں لیکن ان کا رہن سہن‘ لباس‘ دین‘طور اطوار‘ حتیٰ کہ ان کا کھانا پینا بھی ایک دوسرے سے مختلف ہے اسی ثقافتی تفریق سے دو قومی نظریے نے جنم لیا اورہم نے لاکھوں لوگوں کی قربانیاں دے کر یہ ملک حاصل کیا تاکہ ہم اپنے دین اپنی تہذیب و ثقافت کے مطابق زندگیاں بسر کر سکیں اور اپنی ثقافت کو بچا سکیں لیکن افسوس ہم نے اپنی ثقافت کو پس پشت ڈال کر غیر کی بے ہودہ‘ فحش اور غیر اخلاقی اور کھوکھلی ثقافت کو اپنانا شروع کر دیا ہے جو گمراہی اور ذلت کی گہرائیوں میں دھکیل رہی ہے اور اسی بنا پر دنیا میں بھی اپنا وقار ختم کر چکے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں