164

تین بچے تین کہانیاں

میرے دوست سرفراز میر تعمیراتی شعبہ سے وابستہ ہیں۔ جنرل پرویز مشرف دور کے آغاز ہی میں پوٹھوہار میں زمینوں کے خریدوفروخت کا سلسلہ شروع ہوا تو صاحب جائیداد حضرات نے بنجر اور ناقابل کاشت زمینوں کو فروخت کرکے شادی بیاہ گاڑی کاروبار اور اپنی نئی رہائش گاہیں بنانے کو ترجیح دی۔ ان زمینوں پر ہاؤسنگ سوسائیٹوں کا نہ ختم ہونیوالا لامتناعی سلسلہ ہنوز جاری ہے

۔ گزشتہ روزدوست کے جاری منصوبہ کو دیکھنے کا اتفاق ہوا تو ایک تیرہ سالہ بچہ سخت گرمی میں بیلچہ ہاتھ میں تھامے کرش ریڑھی میں لوڈ کیے جارہا تھا۔ پیسنے سے شرابور اس کی پیٹھ دیکھی تو غیر محسوس طریقہ سے چند ایک تصاویر موبائل فون کے کیمرہ میں محفوظ کرنے کے بعد اس سے مخاطب ہوتے ہوئے نام پوچھنے کی کوشش کی تو وہ سہم گیا۔ کام جاری رکھتے ہوئے اپنا نام شہاب علی بتایا سکول جانے کے سوال پرخاموشی اختیارکرلی اور کام کیوں کرنے کے سوال پر اس نے منہ ہی جیسے پھیر لیا آنکھوں سے ٹپکنے والے آنسوؤں کو بازو سے صاف کرنے کی کوشش کی تو اس کی حساسیت کو میں بھانپ گیا۔ شرمندگی اور دکھ سے میری زبان کو بھی چپ لگ گئی۔ میں پیچھے ہٹ گیا لیکن بچے نے لوڈنگ کا کام بدستور جاری رکھا۔ شام کو دوست کی وساطت سے مزدور بچے سے دوبارہ ملاقات کی بہترین کام کرنے پرا سکی حوصلہ افزائی کی۔ تسلی دیتے ہوئے کہا کہ میں بھی مزدور کا بیٹا ہوں، بچپن میں میں بھی آپ کی طرح اپنے ہاتھ سے ایسے ہی مزدوری کرتا رہا ہوں۔ مزدوری کرنا بری بات نہیں ہے

بلکہ ہاتھ سے رزق حلال کمانے والا تو اللہ کا دوست ہوتا ہے۔ آپ تو بہت ہی پیارے بہادر اور جفاکش ہو۔ کیا آپ مزدوری کرنے کی وجہ بتا سکتے ہو؟ جواب میں گردن نیچے کرتے ہوئے بولا میرے والد اور والدہ کی آپس میں ناچاکی ہونے کی وجہ سے دونوں نے اپنی اپنی دوسری شادیاں کرلی ہیں، میں نانی و ماموں کے پاس رہتا ہوں وہ خود بھی غریب مزدور ہیں اس لیے سکول پڑھائی رہائشں اور کھانے پینے کا بوجھ ان پر ڈالنے کی بجائے مزدوری کرکے ان کا سہارا بننے کی کوشش کررہا ہوں۔ محلے کے بچے صبح صبح سکول جارہے ہوتے ہیں جبکہ میں مزدوری کرنے نکل رہا ہوتا ہوں۔ مجھے پڑھائی کا احساس تو ہے لیکن مجبور ہوں میں نے اخراجات برداشت کرنے کی پیشکش بھی کی لیکن وہ بچہ نظریں نیچے رکھے خاموش ہی رہا۔ اسی طرح گزشتہ روز صبح دفتر کی جانب نکلا تو خانہ بدوش خاندان گھوڑوں و خچروں پر سامان لدے ہوئے راستہ میں ملا گاڑی روکتے ہوئے

گھوڑے پر سوار دو بچوں کی تصویر لی تو شاید ان کا والد یا خاندان کا بڑا شخص یک دم میرے پاس آٹپکا اس کے چہرے کے تاثرات میں جان چکا تھا۔ اس سے پہلے کہ وہ کوئی سوال کرتا میں نے کہا کہ گھوڑے پر سوار بچے مجھے بھلے لگے خوشی سے تصویر بنائی شاید بروقت جواب سے اس کا غصہ ٹھنڈا پڑگیا تو میں نے اس سے ایک سوال پوچھنے کی کوشش کی کہ ماشاء اللہ ان بچوں سمیت اور بھی بچے آپ کے ساتھ پیدل و سوار ہیں کیا ان کے لیے تعلیم حاصل کرنے کے لیے کوئی اسباب نہیں بن سکتے؟ کہنے لگے او بھائی ہم خانہ بدوش لوگ ہیں بھیڑ بکریاں گھوڑے اورخچریں ہی ہمارا زرائع آمدن ہیں۔ ہمارا ہر روز ایک نئی جگہ پر ڈیرہ ہوتا ہے۔ گرمائی سیزن شمالی علاقہ جات مانسہرہ، ناران، کاغان اور موسم سرما پوٹھوہار میں گزارتے ہیں۔

گرمیوں کے آغٖاز کے ساتھ ہی جہلم سے واپسی کا رخت سفر باندھ لیتے ہیں۔ ہمارے بچے کس طرح سکولوں میں تعلیم حاصل کرسکتے ہیں؟ جواب دیتے ہوئے وہ بھی مزید وقت ضائع کیے بغیر چل دئیے لیکن میں پچھلے شیشہ سے ریوڑ کے ساتھ چلتے ہوئے بچوں کو دور تک جاتے دیکھتا اوران سے وابستہ پاکستان کے مستقبل کے بارے میں سوچتا رہا۔تیسرا واقعہ بھی کچھ اسی نوعیت کا ہے کہ گزشتہ ہفتہ کو ایک عزیزہ کو ہسپتال سے چیک اپ کروانے کے بعد باہر نکلے ہی تھا کہ گاڑی کے ساتھ دو تین بچے لپکے جن کے پاؤں میں جوتے نہیں تھے اور جسم پر مکمل قمیض نظرآرہی تھی ان کے حلیہ پیشہ وارنہ بھکاریوں جیسا تھا جبکہ مانگنے کا اسلوب اتنا نفیس کہ ہر ددر دل رکھنے والا بندہ ان کی مدد کے لیے ہاتھ کھول دیتا۔ میرے ساتھ مریضہ نے ہمددری کرتے ہوئے ایک ہزار کا نوٹ ان کے ہاتھ میں تھما دیا۔

میں نے تصویر بنائی تو کسی نکر سے دیکھتے ہوئے ان کے والدین بھی آٹپکے فوری طور پر ان سے نوٹ پکڑ لیا۔ میں نے چہرہ پر مصنوعی مسکراہٹ لاتے ہوئے ان سے ہمددری کا اظہار کیا تو وہ میرے پاس چلے آئے میں نے حسب روٹین ان بچوں کی تعلیم اور سکول میں پڑھانے بارے پوچھ لیا۔ والد گویا ہوا بھائی جی ہم غریب لوگ بچوں کو کیسے تعلیم دلواسکتے ہیں؟ ضلع مظفر گڑھ سے مزدوری کے لیے آئے ہوئے ہیں، وہ بھی نہیں مل پا رہی ہے۔ باامر مجبوری بچے ہاتھ پھیلا رہے ہیں لیکن یہاں کے ماحول کو دیکھتے ہوئے بچوں کی والدہ نے قریبی سکول میں بچہ داخل کروانے کی کوشش کی ہے لیکن ب فارم نہ ہونے کی وجہ سے اس سے داخلہ نہ مل سکا۔ یہ سکول نہ جانے غربت کی بناء پر مزدوری بھیک مانگنے اور آوارہ پھرنے یا کم عمری میں اپنا کاروبار کرنے والے تین بچوں کی کہانی نہیں ہے

بلکہ وطن عزیز میں ہمیں آئے روز ایسے سینکڑوں بچے آئے نظر آرہے ہوتے ہیں لیکن بہت کم لوگ ان بچوں کو اپنے بچے یا پاکستان کے بچے تصور کرتے ہیں۔ وفاقی وزارت تعلیم کے ذیلی ادارے پاکستان انسٹیٹیوٹ آف ایجوکیشن کی یونیسکو کے تعاون بنائی گئی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ پاکستان میں اسکول نہ جانے والے بچوں کی تعداد بڑھ کر دو کروڑ باسٹھ لاکھ تک جا پہنچی ہے جو کہ لمحہ فکریہ ہے چونکہ پاکستان کا مستقبل ان معماروں سے وابستہ ہے پاکستان میں بچوں سے کام لینے پر پابندی عائد ہے لیکن ان بے سہارا بچوں کو سرکاری و نجی تعلیمی اداروں تک رسائی نہ ہونے کے برابر ہے۔ ملک بھر میں چالیس ہزار سے زائد دینی مدارس دین و دنیاوی تعلیم کے فروغ کے لیے اہم کردار کررہے ہیں۔ ان میں زیر تعلیم اکثریتی طالبعلموں کو رہائش و کھانا کی مفت سہولت فراہم ہوتی ہے۔

تعلیم کے ساتھ ساتھ پرورش کی ذمہ داری بھی یہ اپنے ذمہ لیے ہوئے ہیں۔ اس طرح پاکستان سویٹ ہوم ریڈ فاؤنڈیشن اور دیگر این جی اوز کے زیراہتمام چلنے والے بے شمار ادارے غریب بے سہارا اور یتیم بچوں کی تعلیم و تربیت کی بہترین ذمہ داری سرانجام دے رہیں۔ ایک محب وطن اور ذمہ داری شہری ہونے کے ناطے ایسے بے سہارا بچوں کی تعلیم و تربیت کے لیے کردار ادا کرنا بھی ہماری اولین ذمہ داری بنتی ہے۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں