بیول سرکاری اراضی پر قبضہ کی رپورٹ سردخانے کی نذر

طالب آرائیں/عقل مندوں کا کہنا ہے اُس پتھر کو ہاتھ نہ لگاؤ جسے اُٹھانا تمہارے بس میں نہ ہوکچھ عرصہ قبل بیول میں منعقدہ ایک کھلی کچہری میں اسسٹنٹ کمشنر گوجر خان کو بیول پل کے ارد گرد تجاوزات کی نشاندہی کی گئی جس پر اسسٹنٹ کمشنر صاحبہ نے کچہری کے اختتام پر واپس گوجرخان جاتے ہوئے پل پر رک کر موقع کا معائنہ بھی کیا اور اپنے ساتھ موجود تحصیل دار کو اس سلسلے میں فوری رپورٹ پیش کرنے کے احکامات بھی جاری کیے خود اسسٹنٹ کمشنر کا ماننا تھا کہ بادی النظر میں تعمیرات تجاوزات ہی دیکھائی دیتی ہیں تاہم محکمہ جاتی رپورٹ ملنے کے بعد اگر یہ تجاوزات کے زمرے میں آتی ہیں تو انہیں گرایا جائے گا خواہ کوئی کتنا ہی طاقت ور کیوں نہ ہو لیکن وہ وعدہ کیا جو وفا ہوجائے۔کاروائی کی اعتماد بھری یقین دہانی وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ گرد آلود ہوئی اور رات گئی بات گئی کی مثال کے مطابق شکایات اور دعوے دونوں ہوا ہوئے ہمارے یہاں قانون بنانے سے پہلے توڑنے کی تجاویز پر اچھے سے سوچ لیا جاتا ہے جو بااختیار ہیں وہ بے اختیار ہونے کا رونا روتے ہیں فرد اداروں سے زیادہ طاقت ور ہیں یہاں کی سیاست قانون سے بالاتر ہے معاشرے میں قانون کوپاؤں تلے رونداجاتا ہے۔ہر برائی اور برے شخص کے پس پشت سیاسی ہاتھ نظر آتا ہے وقت کبھی کسی کے روکے نہیں رکتا البتہ ہمارے یہاں وقت صرف سالوں کے ہندسوں کو بدلتا ہے مگر حالات وواقعات اور دیگر معاملات جوں کے توں رہتے ہیں کیونکہ بااختیار طبقہ ایسے بدنا ہی نہیں چاہتا پل پر تجاوزات کے قانونی یا غیر قانونی ہونے کی طلب کردہ رپورٹ ابتک سامنے نہیں آسکی اور شاید کبھی سامنے آئے گی بھی نہیں کیونکہ قبضہ کسی بے پہنچ اور غریب کا نہیں بااثر اور طاقت ور افراد کا ہے اس ملک میں تجاوزات کے نام پر مسجدیں گرائی جاتی ہیں لیکن قبضوں پر بنے بڑے بڑے پلازے محفوظ رہتے ہیں۔ہر دور میں یہی کچھ ہوا ہے جو اس دور میں ہورہا۔ غیرقانونی عمل کو ہر دور میں تحفظ دیاجاتا ہے دور چاہے آمریت کا ہو یا نام نہاد جمہوریت کا‘تاریخ گواہ ہے کہ ابلیس نے ہر دور میں اپنا قول نبھاتے ہوئے اولاد آدم کو صراط مستقیم سے اتنا دور کر دیا کہ وہ گمراہ کن تاریکی میں ڈوب کر رہ گئے۔زندگی میں آسانیاں تلاش کرنے کے لیے ہم ابلیس کے آلہ کاربن چکے ہیں۔وقت کے ساتھ ہر چیز میں تغیر وتبدیل رونماہوتا ہے زمانے کے ان بدلتے ہوئے اثرات سے انسان بچ نہیں سکتا لیکن کچھ قدریں اس نوعیت کی ہوتی ہیں جنھیں نظر انداز کرنے سے انسان محض خسارے میں رہتاہے اخلاق شرافت اور کسب حلال یہ عناصر زندگی میں بنیادی حیثیت کے حامل ہوتے ہیں لیکن ہم ان سب سے بہت آگے نکل کر زندگی کو آسائشیں دینے کے لیے کمر بستہ ہیں۔اور اس کے لیے ہرضابطے کو روندنا ہمارے لیے کوئی مشکل نہیں رہا قانون تواس کی حیثیت کسی فالج زدہ مریض سے زیادہ نہیں جو دیکھ سکتا ہے لیکن حرکت سے عاری ہوتا ہے۔پھر یوں ہوا کہ میڈیا میں تنقید کے بعد گذشتہ دنوں تمام افراد کو نوٹسسز نکالے گئے جس پر ایک صاحب کی جانب سے اسٹے لینے کی اطلاعات ہیں۔جس پر معاملہ ایک طویل عرصے تک لٹکائے رکھنے کا بندوبست کر لیا گیا ہے۔ہونا یہ چاہیے کہ اگر تجاوزات کے بارے کوئی رپورٹ بنائی گئی ہے تو اسے پبلک کیاجائے تاکہ جو لوگ قانونی طور پر اپنی جگہ پر تعمیرات کیے ہوئے ہیں ان کے بارے میں عوام کوآگاہی ہو اس وقت عوام میں یہ تاثر عام ہے کہ سب لوگ ہی قبضہ پر ہیں۔جبکہ کچھ افراد کا دعویٰ ہے کہ ان کی تعمیرات ان کی اپنی زمین پر ہیں نہ کہ قبضے پر اس ابہام کو ختم کرنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ واضح کیا جائے کہ کس کی تعمیر قانونی اور کس کی غیر قانونی ہے۔ریکارڈ کے مطابق جس جس کی تعمیرات غیر قانونی اور قبضہ پر ہیں ان کو ہر صورت گرانا چاہیے چاہے کوئی کتنا ہی طاقت ور کیوں نہ ہو۔تاہم جو بھی ہو انصاف اور قانون کے دائرے میں ہو اگر ادارے اپنی ذمہ داریوں کو احسن طور نبھاتے تو اب تک یہ معاملہ انجام پذیر ہوچکا ہوتا۔لیکن یہاں تو اندھیر نگری اور چوپٹ راج کے مقولے کے تحت چلایا جاتا ہے جس سے معاملات الجھتے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں