columns 149

بلیو اکانومی

اگر چہ صدیوں سے معاشی کے حصول کے لئے بنی نوع انسان کا سمندر پر انحصار رہا ہے مگرجون 2012 ء میں اقوام متحدہ کے ایک فورم پر جب پہلی بار بلیوا کانومی کا تصور پیش ہوا تو اس کے بعد سے یہ موضوع مسلسل دنیا میں توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے معیشت کی سوجھ بوجھ رکھنے والے دانشوروں نے پانی سے جڑی معیشت کی بڑھتی ہوئی اہمیت پر زور دیا اور پالیسی ساز اداروں کو باور کرانے کی کوشش کی کہ سمندروں کی دنیا میں ایک جہاں آباد ہے جو بنی نوع انسان کے لئے معاشی منفعت کا سبب بن سکتا ہے

بشر طیکہ سمندر سے جڑے وسائل کو ایک منظم طریقے سے برو ئے کار الایا جائے میری ٹائم ریاستوں کے لئے معاشی مواقع بلاشبہ ان ریاستوں اور ممالک سے زیادہ ہیں جو سمندروں سے دورہیں یا زمین میں محصوریعنی لینڈلاکٹمیں بلیوا کانومی کاانحصار سمندری و سائل تک رسائی اور اس کی کامیابی کا راز ان وسائل کو بروئے کار لانے میں مضمر ہے اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا کی ساٹھ فیصد آبادی ساحلوں پر آباد ہے دنیا کے تین ارب لوگ اپنے معاش کے حصول کے لئے سمندروں سے رجوع کرتے ہیں یا سمندری وسائل پر انحصار کرتے ہیں

اس وقت دنیا کی نوے فی صد تجارت سمندر کے راستے ہوتی ہے اور اس کے حجم میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اندازہ ہے کے2030 ء تک موجودہ سمندری تجارت کا حجم دو گنا ہو جائے گا اس وقت دنیا کا سب سے اہم مسئلہ، خوراک کی کمی یا فوڈ سیکورٹی ہے بلیو اکانوی کے ماہرین کے نزدیک خوراک کی کمی کا حل سمندر میں چھپے وسائل تک رسائی اور اُن سے جڑی معیشت میں پنہاں ہے ایک تحقیق کے مطابق پانی سے جڑی معیشت کا خجم، چوبیس کھرب ڈالر ہے جس میں دو کھرب ڈالر کے حساب سے سا لانہ اضافہ ہورہا ہے بلیو اکانومی فشریز‘جہازرانی‘ زرائع نقل و عمل سیاحت توانائی اور دیگر کئی شعبوں کے فروغ کے لئے انتہا ئی اہم کردار ادا کر سکتی ہے

پاکستان ایک اہم میری ٹائم ریاست ہے اور یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ پاکستان کے پاس ایک ہزار کلو میٹر طویل ساحلی پٹی ہے جو ان گنت سمندری وسائل سے مالامال ہے اس کے علاوہ پاکستان کے پاس دولاکھ چالیس ہزار مربع کلومیٹر کا خصوصی اکنامک زون ہے اور پچاس ہزار کلومیٹر کا براعظمی شیلف بھی ہے جو ہماری ملکی حدود میں شامل ہے یہ دولا کھ نوے ہزار مربع کلومیٹر کا علاقہ صوبہ پنجاب کے مجموعی رقبے سے بھی زیادہ ہے اور اس کو پاکستان کا چھٹا صوبہ بھی کہا جا سکتا ہے خصوصی اکنامک زونز میں پاکستان کو سمندری حیات کے وسائل سے متعلق تحقیق و تلاش کا مکمل اختیار حاصل ہے اور اس سے بہت سی معاشی راہیں کھلنے کے امکانات روشن ہیں بلیواکانومی سے بھر پور فائدہ ا ٹھانے کے لیے ضروری ہے

اس کے تمام عناصر کو فوکس کیا جائے لیکن کم از کم دو شعبے شیپنگ اورفشریزایسے ہیں جن پر فوری طور پر آسانی سے کام شروع کیا جا سکتا ہے پاکستان کے شیپنگ سیکٹر کو دیکھیں تومعلوم ہوتا ہے کہ پاکستان کا شیپنگ سیکٹر وسائل کے تناسب سے محدود ہے اور پاکستان کو درآمدات کے اعتبار سے صرف فریٹ کی مد میں چھ بلین ڈالر کے قریب خرچ کرنے پڑتے ہیں ؎جوشیپنگ کی صنعت میں سرمایہ کاری سے بچا ئے جا سکتے ہیں اگر آپ بین الاقوامی تجارت کرنا چاہتے ہیں توآپ کو شیپنگ کی صنعت کو فروغ دینا پڑے کا شیپنگ کے شعبے میں پیچھے رہ جانے کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ اس شعبے میں کوئی جامع حکومتی پالیسی ہی موجود نہیں ہے

جو شیپنگ کوشعبے کے مقاصد کو طے اور ریگولیٹ کرتی ہو حالانکہ شیپنگ کے شعبے کی ترقی ہی سے بلیو اکانومی میں ترقی جڑی نظر آتی ہے اس حوالے سے ایک نمایاں مثال ایتھوپیا کی ہے ایتھوپیا نے 2000 ء میں ایک قانون بنایا تھا کہ ملک کی تمام در امدات ایتھوپیا کے جہاوزوں سے ہی ملک میں آسکیں گی اور اس مقصد کے لیے کوئی غیر ملکی جہاز استعمال نہیں ہوگا اس قانون کی وجہ سے آج ایتھوپیا کا شیپنگ کا شعبہ مسلسل ترقی کرر ہا ہے شیپنگ کی طرح فشریز کا شعبہ بھی بلیو آکانومی میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے

بین الاقوامی سطح پر فشریز کے شعبے کا گلوبل جی ڈی پی میں دو سوستر ارب ڈالرز کا حصہ ہے اور آٹھ سو بیس ملین میں یعنی بیاسی کروڑ افرادفشریزکے شعبے کے ساتھ منسلک ہیں اور ان کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ پاکستان میں لگ بھگ سات لاکھ لوگ فشریز کے شعبے سے منسلک ہیں یہ شعبہ پاکستان کی برآمدات میں اضافے کا بڑا زریعہ ثابت ہو سکتا ہے جون 2019ء میں پاکستانی بتیس ملین ڈالر کی مچھلی بر آمد کی اور ان کو اگر مناسب منصوبہ بندی کے ساتھ کیا جائے تو اس میں کئی گنا اضافہ کیا جا سکتا ہے

فشریز کو سی پیک کے ساتھ منسلک کر کے بہت فا ئدہ اٹھایا جا سکتا ہے چین اس وقت فشریز کی صنعت میں بہت جدید اور بڑے پیمانے پر کام کر رہا ہے اور پاکستان، اس دور میں چین کے تجربے سے بہت فائدہ اٹھا سکتا ہے ؎ پاکستان کو بلیو اکانومی کے ویزن پر کام کرنا ہو گا پاکستان کو بلیو اکانومی کی سمجھ بوجھ رکھنے والے دانشوروں یونیورسٹیوں، جہاں میری ٹائم اور بلیو کا نومی کے مضامین پڑھائے جار ہے ہیں ہے اور میڈیا کو اس مشق میں شامل کرنا پڑے گا اور سوچنا پڑے گا کہ کیسے میری ٹائم سیکٹر کو جلد از جلد ترقی دی جاسکتی ہے کیونکہ دنیا میں معیشت تجارت اور جدید ٹیکنا لوجی کے محرکات تیزی سے بدل رہے ہیں بلیو اکانومی سے بھر پور فائدہ اٹھانے کے لئے ہمیں درکار اہلیت کو بھی حاصل کرنا ہو گابلیواکانومی اور میری ٹائم میں ہمارے لئے کیا

مواقع ہیں اور ان کو کیسے ذریعہ معاش میں ڈھالا جاسکتا ہے اس کے لیے ایک جامع حکمت عملی کی ضرورت ہے بلیواکانومی اور میری ٹائم سیکورٹی کے لیے پاک بحریہ کا کردار نمایا ں نوعیت کاہے پاکستان کے پانیوں کی محافظ نیوی ایک انتہائی منظم اور پیشہ ورانہ فورس سے پاک بحریہ کے آپریشنل کردارکی بدولت نہ صرف وہ ہر وقت سمندروں میں۔ موجود رہتی ہے بلکہ بلیواکانومی اورمیری ٹائم سیکورٹی سے متعلق تمام پہلووں پر بھی اس کی گہری نظر ہے آنے والے وقت کا تقاضا ہے کہ پاک بحریہ پاکستان میں بلوا کانومی کے فروغ کے لیے کر دار ادا کرے اورلوگوں میں بلیواکا نومی اور میری ٹائم سیکورٹی کے بارے میں آگاہی دے یہ آگا ہی پاک بحریہ کے زیر انتظام چلنے والے ادارے بالخصوص یونیورسٹیاں اور تھنک ٹینکس دے سکتے ہیں اور دے رہے ہیں

اسی تناظر میں پاک بحریہ وارکالج نے میری ٹائم سیکورٹی ورکشاپ کا انعقاد کیا جس میں سینٹ، قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے ممبران کے علاوہ مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے لوگ ٹھیک ہوئے ورکشاپ کے دوران میری ٹائم سیکیورٹی کے تمام پہلووں پرمباحث کا اہتمام کیا گیا اور بعد ازاں شرکاء کو گوادر اوماڑہ اور کراچی لے جایا گیا تاکہ شرکاء زمینی حقائق سے آگاہی ہو میری ٹائم سیکورٹی ورکشاپ کے کامیاب انعقاد پر پاک بحریہ وار کالج بلا شبہ مبا رکباد کا مستحق بلیو اکانومی پاکستان کا مستقبل ہے اور پاکستان کا مستقبل ہی ہم سب کا مفاد ہے ضرورت اس امر کی ہے کے پالیسی ساز ادارے، علمی مراکز و دانشور، کاروباری حضرات اور سول سوسائٹی کے نمائندگان آگے بڑھیں اور اپنے اپنے حصے کا دیا جلائیں۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں