بارات سے پہلے دولہے کی مائیں بہنیں گھڑولی پانی سےبھرتی

پرانے وقتوں میں بارات کی روانگی سے قبل گھڑولی بھرنے کی رسم عام تھی یہ رسم موجودہ دور میں بھی اپنا روایتی تشخص برقرار رکھے ہوئے ہے بارات نکلنے سے پہلے دولہے کی مائیں بہنیں اور قریبی رشتہ دارخواتین گاؤں کے کنویں سے ایک گھڑا نما چمکیلی نقش ونگار سے مزین گھڑولی میں پانی بھر کر لاتی تھیں تمام عورتیں باری باری وہ گھڑولی اپنے سروں پر رکھتی اورسب مل کر باقاعدہ ڈھولک اور تالیاں بجا کر دولہے کی شان وشوکت کے گیت گایا کرتی تھیں گھڑولی جب گھرپہنچتی تو نٹ ڈھول بجاتے عزیزواقارب اور بھائی چارے ایک روپیہ کی باری باری بیلیں کراتے تھے نیٹ بیلیں کرانے والے کا نام بڑھا چڑھا کر اونچی آواز میں پکارتا اور کہتا اے چوہدری صاحب دی بیل اے راجہ صاحب دی بیل اس رسم کے بعد ماشکی پانی لے کر دولہے کے گھرکی چھت کے اوپر چڑھ جاتا نیچے دولہا نہانے کی غرض سے ایک لکڑی کے بنڈے پر کمر پر تولیہ باندھ کر کھڑا ہوجاتا ماشکی چھت کی منڈیر سے دولہا پر پانی گراتا اور دولہا خوب صابن وغیرہ جسم پر لگا کر پانی سے نہاتا غسل کرنے کے بعد دولہا قریب ہی رکھی انگھیٹی کو پاؤں سے ٹھکر لگا کر اس میں پڑے گرم کوئلے انڈیل دیتا اور یوں دولہے کے غسل کی رسم اختتام پزیر ہوجاتی پھر دولہا نیا شادی کا لباس زیب تن کرتا اس مرحلے میں دوست بھی دولہے کو تیار کرنے اور سہرا وغیرہ باندھنے میں اسکی مدد کیا کرتے تھے جبکہ دولہے کے پرانے کپڑے نائی کو دئیے جاتے تھے جب دولہا باقاعدہ شادی کا لباس پہن کر تیار ہوجاتا تو گھر کے صحن میں اسے ایک کرسی پر بٹھایاجاتا پھر باقاعدہ رشتہ داروں اور دوستوں کیجانب سے سلامی اور بھانجی دینے کا سلسلہ شروع جاتا کوئی دوست یا رشتہ دار پھولوں کی مالا تو کوئی نوٹوں کے ہار دولہے کے گلے میں ڈالتے اس دوران تمام رشتہ دار اور دوست کوئی دو روپے کوئی پانچ روپے یا دس روپے سلامی دیتا جس کا نام اور پیسے باقاعدہ رجسٹر میں درج کیے جاتے کیونکہ کسی دوسرے رشتہ دار وغیرہ کی شادی کے موقعہ پر یہ سلامی یا بانجی اسے واپس بھی کرنا ہوتی تھی یاداشت کیلیے سب کچھ لکھ کر محفوظ کرلیا جاتا تھا اس تمام سرگرمیوں کے بعد ویر میرا گھوڑی چڑھیا یعنی دولہا اب تمام بناؤ سنگھار اورعطر وغیرہ لگا کرگھوڑی پر بیٹھنے کے لیے پوری طرح تیار ہوتا بہنیں گھوڑی کو چنے یا دانے کھلاتی بدلے میں بھائی بھی خوشی سے بہنوں کو کچھ نہ کچھ پیسے دیتا تھا جب بارات گھر سے نکلتی تو خوب ڈھول بجتے تمام گاؤں والے سمجھ جاتے کہ اب بارات روانگی کے لیے تیار ہے بارات کی روانگی کے راستے میں دولہے اور بارات کو دیکھنے کیلیے گاؤں کی عورتیں اور بچے اپنے گھروں کی چھتوں پرچڑھ کرجنج کا نظارہ کرتے باراتی اوردیگر قریبی رشتہ دار دولہے کے ہمراہ باقاعدہ قبرستان اور مقامی اولیا ء کے مزاروں پر سلام کرتے اور انکے ایصال ثواب کیلیے دعا کی جاتی دولہا جب دوبارہ گھوڑی پرچڑھتا تو ڈھول بجنا شروع ہوجاتا مگرجب مسجد کے پاس سے گزرتے تو احتراماً ڈھول باجے بجانا بند کردیتے تھے چونکہ اس دور میں لڑکی کا رشتہ ڈھونڈنے کے لیے اپنے خاندان یا اردگرد کے گاؤں کو ترجیح دی جاتی تھی اس دور میں اجنبیوں یا دوردراز سے رشتے یا شادی کرنے سے لوگ کتراتے تھے جب بارات دولہن کے گھر روانہ ہوتی تو جانجی پیدل دولہے کی گھوڑی کیساتھ ساتھ چلتے اگر کسی باراتی کے پاس اپنا پیسٹل یا رائفل ہوتی تو وہ وقفے وقفے سے فائرنگ کرتا جس سے ٹھاٹھا کی آوازیں گونجنے لگتی جس سے بارات کی شان وشوکت بھی مزید بڑھ جاتی تھی تاہم بڑے بزرگ اس فائرنگ سے یہ کہہ کر نوجوانوں کو فائرنگ سے احتیاط اور اجتناب برتنے کی ہدایت کرتے بارات کے راستے میں آنے والے دولہا کے رشتہ یا جان پہچان والے اپنے گھر کے باہر دودھ یا شربت کا گلاس لے کر کھڑے
ہوتے اور قریب آنے پر دولہے کو وہ دودھ یا شربت کا گلاس پیش کیا جاتا بدلے میں دولہا اور اسکے دوست دودھ پلانے والے یا والی کی دلجوئی کے لیے پانچ دس روپے دے دیتے تھے بارات جب دلہن کے گھر کے قریب پہنچتی تو دولہن کے ماں باپ بھائی بہن رشتہ دار باراتیوں کا استقبال کرنے گھر کے مرکزی دروازے پر آجاتے نٹنیاں دولہا کے سہرا کے نام پر گانا شروع کر دیتیں جنج دولہا کے دوست یار بیلی ایک ایک روپیہ کے نوٹوں کی بیلیں کراتے بعدازاں زمین پر دریاں یا ٹاٹ بچھا کر باراتیوں کو بڑی عزت سے بٹھایا جاتا البتہ دولہے کی بیٹھنے کی جگہ پر دری کے اوپر روئی کی تلاشی اور اسکے اوپرچادربچھا دی جاتی تھی اور تکیے بھی رکھے جاتے اس کے بعد رسم نکاح شروع ہوجاتی دولہا باراتیوں کے سامنے مولوی صاحب کے ساتھ بیٹھ جاتامولوی صاحب نکاح پڑھوانے سے قبل دولہے سے چھ کلمے اور ایمان کی صفتیں سنتے تھے دولہا مولوی صاحب کو سامنے کلمے کھڑے ہوکر سناتا نکاح مکمل ہونے پر دولہا وہاں پر موجود سب مہمانوں کو سلام کرتا اور جواب میں مبارک بادیں وصول کرتا اب باراتیوں کی خاطر تواضع کے لیے مہمانوں کو قطاروں میں آمنے سامنے بٹھا کر کھانا کھلانے کا عمل شروع ہوجاتا تاہم دولہے اور اسکے دوستوں کے لیے کھانے کاالگ انتظام کیاجاتا باراتیوں کے لیے کھانا چاول گوشت اور روٹی پر مشتمل ہوتا بعد میں دولہن کی سہیلیاں دولہے کو مٹھائی پیش کرتیں جبکہ دولہے کے دوست دولہن کی سہلیوں سے ہنسی مزاق کرتے تاہم کافی بحث و تقرار کے بعد مٹھائی کے بدلے دولہا اور اسکے دوست دولہن کی سہیلیوں کو پیسے دیے کر انتہائی احترام سے رخصت کرتے تھے بارات کا سارا دن شغل میلے میں گزر جاتا اس دور میں دلہن کی تیاری کسی بیوٹی پارلر میں نہیں ہوتی تھی بلکہ اپنے گھر پر ہی اس کی سہیلیاں اسے دلہن کے روپ میں تیار کرتی تھیں اس دور میں جہیز وغیرہ کی کوئی شرط مقرر نہ تھی جو کچھ دولہن کے گھر والوں کی مالی اسطاعت ہوتی اتنا ہی دولہے کے گھر والوں بخوشی قبول کرلیتے جہیز میں کھانا پکانے کے برتن چارپائی اور دیگر استعمال ہونے والی ضروریات زندگی کی اشیا جہیز میں شامل ہوتیں اس وقت ایل ای ڈی واشنگ مشین اور ٹی وی فرج وغیرہ کی ایجادات نہیں تھیں۔آخر میں دلہن کی رخصتی کے وقت دلہن ماں باپ بھائی چاچے تائے اور دیگر رشتہ دار دلہن کے سر پر ہاتھ پھیر کر رخصت کرتے دولہا اپنے سسر اور ساس کے پاؤں چھوتا اور ان سے دعائیں لیتاقرآن مجید دولہن کے سر سے ایک فٹ اوپر رکھتے پھر دلہن کو کچے چاول یا کچی گندم کے دانے رخصتی کے وقت واپس میکے گھرمیں پیچھے کی طرف پھینکتی۔ ڈولی میں دولہن کو بٹھا کر بھائی چاچے تائے چاروں طرف سے ڈھولی کی سائیڈوں پر لگے ڈنڈے پکڑ کر ڈھولی اٹھا لیتے جونہی ڈھولی اٹھاتے تو دولہے کا والد کچھ سکے ڈولی کے اوپر پھینکتا جو بچے ایک دوسرے کو دھکے دے چن لیا کرتے تھے جب ڈھولی سسرال کے گھر پہنچتی اس کا استقبال ساس سسر اور دولہے کی بہنیں کرتیں ڈھولی سے اترتے ہی گاوں کی عورتیں دلہن کو دیکھنے کے لئے وہاں پہنچ جاتیں اور دلہن کو کچھ نہ کچھ پیسوں کی صورت میں سلامی دے جاتے اس دور میں طے کیے گئے رشتے لازوال اور پائیدار ہوتے جنکی قائم ودائم رہنے کی آج بھی مثالیں دی جاتی ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں