304

بارات سے پہلے دولہے کی مائیں بہنیں گھڑولی پانی سےبھرتی

پرانے وقتوں میں بارات کی روانگی سے قبل گھڑولی بھرنے کی رسم عام تھی یہ رسم موجودہ دور میں بھی اپنا روایتی تشخص برقرار رکھے ہوئے ہے بارات نکلنے سے پہلے دولہے کی مائیں بہنیں اور قریبی رشتہ دارخواتین گاؤں کے کنویں سے ایک گھڑا نما چمکیلی نقش ونگار سے مزین گھڑولی میں پانی بھر کر لاتی تھیں تمام عورتیں باری باری وہ گھڑولی اپنے سروں پر رکھتی اورسب مل کر باقاعدہ ڈھولک اور تالیاں بجا کر دولہے کی شان وشوکت کے گیت گایا کرتی تھیں گھڑولی جب گھرپہنچتی تو نٹ ڈھول بجاتے عزیزواقارب اور بھائی چارے ایک روپیہ کی باری باری بیلیں کراتے تھے نیٹ بیلیں کرانے والے کا نام بڑھا چڑھا کر اونچی آواز میں پکارتا اور کہتا اے چوہدری صاحب دی بیل اے راجہ صاحب دی بیل اس رسم کے بعد ماشکی پانی لے کر دولہے کے گھرکی چھت کے اوپر چڑھ جاتا نیچے دولہا نہانے کی غرض سے ایک لکڑی کے بنڈے پر کمر پر تولیہ باندھ کر کھڑا ہوجاتا ماشکی چھت کی منڈیر سے دولہا پر پانی گراتا اور دولہا خوب صابن وغیرہ جسم پر لگا کر پانی سے نہاتا غسل کرنے کے بعد دولہا قریب ہی رکھی انگھیٹی کو پاؤں سے ٹھکر لگا کر اس میں پڑے گرم کوئلے انڈیل دیتا اور یوں دولہے کے غسل کی رسم اختتام پزیر ہوجاتی پھر دولہا نیا شادی کا لباس زیب تن کرتا اس مرحلے میں دوست بھی دولہے کو تیار کرنے اور سہرا وغیرہ باندھنے میں اسکی مدد کیا کرتے تھے جبکہ دولہے کے پرانے کپڑے نائی کو دئیے جاتے تھے جب دولہا باقاعدہ شادی کا لباس پہن کر تیار ہوجاتا تو گھر کے صحن میں اسے ایک کرسی پر بٹھایاجاتا پھر باقاعدہ رشتہ داروں اور دوستوں کیجانب سے سلامی اور بھانجی دینے کا سلسلہ شروع جاتا کوئی دوست یا رشتہ دار پھولوں کی مالا تو کوئی نوٹوں کے ہار دولہے کے گلے میں ڈالتے اس دوران تمام رشتہ دار اور دوست کوئی دو روپے کوئی پانچ روپے یا دس روپے سلامی دیتا جس کا نام اور پیسے باقاعدہ رجسٹر میں درج کیے جاتے کیونکہ کسی دوسرے رشتہ دار وغیرہ کی شادی کے موقعہ پر یہ سلامی یا بانجی اسے واپس بھی کرنا ہوتی تھی یاداشت کیلیے سب کچھ لکھ کر محفوظ کرلیا جاتا تھا اس تمام سرگرمیوں کے بعد ویر میرا گھوڑی چڑھیا یعنی دولہا اب تمام بناؤ سنگھار اورعطر وغیرہ لگا کرگھوڑی پر بیٹھنے کے لیے پوری طرح تیار ہوتا بہنیں گھوڑی کو چنے یا دانے کھلاتی بدلے میں بھائی بھی خوشی سے بہنوں کو کچھ نہ کچھ پیسے دیتا تھا جب بارات گھر سے نکلتی تو خوب ڈھول بجتے تمام گاؤں والے سمجھ جاتے کہ اب بارات روانگی کے لیے تیار ہے بارات کی روانگی کے راستے میں دولہے اور بارات کو دیکھنے کیلیے گاؤں کی عورتیں اور بچے اپنے گھروں کی چھتوں پرچڑھ کرجنج کا نظارہ کرتے باراتی اوردیگر قریبی رشتہ دار دولہے کے ہمراہ باقاعدہ قبرستان اور مقامی اولیا ء کے مزاروں پر سلام کرتے اور انکے ایصال ثواب کیلیے دعا کی جاتی دولہا جب دوبارہ گھوڑی پرچڑھتا تو ڈھول بجنا شروع ہوجاتا مگرجب مسجد کے پاس سے گزرتے تو احتراماً ڈھول باجے بجانا بند کردیتے تھے چونکہ اس دور میں لڑکی کا رشتہ ڈھونڈنے کے لیے اپنے خاندان یا اردگرد کے گاؤں کو ترجیح دی جاتی تھی اس دور میں اجنبیوں یا دوردراز سے رشتے یا شادی کرنے سے لوگ کتراتے تھے جب بارات دولہن کے گھر روانہ ہوتی تو جانجی پیدل دولہے کی گھوڑی کیساتھ ساتھ چلتے اگر کسی باراتی کے پاس اپنا پیسٹل یا رائفل ہوتی تو وہ وقفے وقفے سے فائرنگ کرتا جس سے ٹھاٹھا کی آوازیں گونجنے لگتی جس سے بارات کی شان وشوکت بھی مزید بڑھ جاتی تھی تاہم بڑے بزرگ اس فائرنگ سے یہ کہہ کر نوجوانوں کو فائرنگ سے احتیاط اور اجتناب برتنے کی ہدایت کرتے بارات کے راستے میں آنے والے دولہا کے رشتہ یا جان پہچان والے اپنے گھر کے باہر دودھ یا شربت کا گلاس لے کر کھڑے
ہوتے اور قریب آنے پر دولہے کو وہ دودھ یا شربت کا گلاس پیش کیا جاتا بدلے میں دولہا اور اسکے دوست دودھ پلانے والے یا والی کی دلجوئی کے لیے پانچ دس روپے دے دیتے تھے بارات جب دلہن کے گھر کے قریب پہنچتی تو دولہن کے ماں باپ بھائی بہن رشتہ دار باراتیوں کا استقبال کرنے گھر کے مرکزی دروازے پر آجاتے نٹنیاں دولہا کے سہرا کے نام پر گانا شروع کر دیتیں جنج دولہا کے دوست یار بیلی ایک ایک روپیہ کے نوٹوں کی بیلیں کراتے بعدازاں زمین پر دریاں یا ٹاٹ بچھا کر باراتیوں کو بڑی عزت سے بٹھایا جاتا البتہ دولہے کی بیٹھنے کی جگہ پر دری کے اوپر روئی کی تلاشی اور اسکے اوپرچادربچھا دی جاتی تھی اور تکیے بھی رکھے جاتے اس کے بعد رسم نکاح شروع ہوجاتی دولہا باراتیوں کے سامنے مولوی صاحب کے ساتھ بیٹھ جاتامولوی صاحب نکاح پڑھوانے سے قبل دولہے سے چھ کلمے اور ایمان کی صفتیں سنتے تھے دولہا مولوی صاحب کو سامنے کلمے کھڑے ہوکر سناتا نکاح مکمل ہونے پر دولہا وہاں پر موجود سب مہمانوں کو سلام کرتا اور جواب میں مبارک بادیں وصول کرتا اب باراتیوں کی خاطر تواضع کے لیے مہمانوں کو قطاروں میں آمنے سامنے بٹھا کر کھانا کھلانے کا عمل شروع ہوجاتا تاہم دولہے اور اسکے دوستوں کے لیے کھانے کاالگ انتظام کیاجاتا باراتیوں کے لیے کھانا چاول گوشت اور روٹی پر مشتمل ہوتا بعد میں دولہن کی سہیلیاں دولہے کو مٹھائی پیش کرتیں جبکہ دولہے کے دوست دولہن کی سہلیوں سے ہنسی مزاق کرتے تاہم کافی بحث و تقرار کے بعد مٹھائی کے بدلے دولہا اور اسکے دوست دولہن کی سہیلیوں کو پیسے دیے کر انتہائی احترام سے رخصت کرتے تھے بارات کا سارا دن شغل میلے میں گزر جاتا اس دور میں دلہن کی تیاری کسی بیوٹی پارلر میں نہیں ہوتی تھی بلکہ اپنے گھر پر ہی اس کی سہیلیاں اسے دلہن کے روپ میں تیار کرتی تھیں اس دور میں جہیز وغیرہ کی کوئی شرط مقرر نہ تھی جو کچھ دولہن کے گھر والوں کی مالی اسطاعت ہوتی اتنا ہی دولہے کے گھر والوں بخوشی قبول کرلیتے جہیز میں کھانا پکانے کے برتن چارپائی اور دیگر استعمال ہونے والی ضروریات زندگی کی اشیا جہیز میں شامل ہوتیں اس وقت ایل ای ڈی واشنگ مشین اور ٹی وی فرج وغیرہ کی ایجادات نہیں تھیں۔آخر میں دلہن کی رخصتی کے وقت دلہن ماں باپ بھائی چاچے تائے اور دیگر رشتہ دار دلہن کے سر پر ہاتھ پھیر کر رخصت کرتے دولہا اپنے سسر اور ساس کے پاؤں چھوتا اور ان سے دعائیں لیتاقرآن مجید دولہن کے سر سے ایک فٹ اوپر رکھتے پھر دلہن کو کچے چاول یا کچی گندم کے دانے رخصتی کے وقت واپس میکے گھرمیں پیچھے کی طرف پھینکتی۔ ڈولی میں دولہن کو بٹھا کر بھائی چاچے تائے چاروں طرف سے ڈھولی کی سائیڈوں پر لگے ڈنڈے پکڑ کر ڈھولی اٹھا لیتے جونہی ڈھولی اٹھاتے تو دولہے کا والد کچھ سکے ڈولی کے اوپر پھینکتا جو بچے ایک دوسرے کو دھکے دے چن لیا کرتے تھے جب ڈھولی سسرال کے گھر پہنچتی اس کا استقبال ساس سسر اور دولہے کی بہنیں کرتیں ڈھولی سے اترتے ہی گاوں کی عورتیں دلہن کو دیکھنے کے لئے وہاں پہنچ جاتیں اور دلہن کو کچھ نہ کچھ پیسوں کی صورت میں سلامی دے جاتے اس دور میں طے کیے گئے رشتے لازوال اور پائیدار ہوتے جنکی قائم ودائم رہنے کی آج بھی مثالیں دی جاتی ہیں۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں