اگر کسی ملک میں بنیادی ضروریات میسر نہیں تو اسے کہا جائے

شاہدجمیل منہاس،پنڈی پوسٹ/آج کے پاکستان کی آبادی کا تقریباً 33%حصہ کام کرنے کے قابل ہے اور باقی% 67 آبادی دوسروں پر انحصار کرتی ہے۔ جن میں بوڑھے ، بچے ،اپاہج ، عورتیں وغیرہ شامل ہیں ۔ اس کے باوجود جمعیت محنت کا ایک چوتھائی حصہ بیروزگاری کا شکار ہے ۔ لہذٰا فی کس آمدنی قلیل ہونے کی وجہ سے معیار زندگی پست ہے جوکہ افراط آبادی کی دلیل ہے۔پاکستان کے مقابلے میںترقی یافتہ ممالک مثلاًامریکہ ، کینیڈا، جاپان، برطانیہ وغیرہ میں با روزگار آبادی 60سے 66فیصد اور بے روزگار افراد کا تناسب 34سے40 فیصد تک ہے۔پاکستان میں اشیائے خوراک کی قلت اور ایندھن کی کمی ہے، رہائشی مکانات کا مسئلہ شدید صورت حال اختیار کر چکا ہے ۔مہنگائی کی وجہ سے صارفیں سخت پریشان ہیں ۔ خواندگی کا معیار پست ہے۔ زیادہ تر لوگ ، بے ہنر ، ان پڑھ اور قدامت پسند ہیں۔ عورتوں کا معاشی جدوجہد میں حصہ لینا تو ہین سمجھا جاتا ہے۔ مزدوروں کی استعداد کا ر پست ہے۔ نقل و حمل کی سہولتیں ناکافی ہیں۔ لہذٰا موجودہ آبادی ملکی ذرائع پر بوجھ بنی ہوئی ہے۔جب ہم پاکستان کی آبادی کا موازنہ اس ملک میں موجود قدرتی اور دیگر وسائل سے کرتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ ہمارے ملک میں قومی آمدنی او ر سہولیات میں اضافہ اس رفتار سے نہیں ہو رہا جس رفتار سے آبادی میں اضافہ ہو تا جارہا ہے۔ اور آسان الفاظ میں اگر بیان کیا جائے تو یوں کہنا چاہیے کہ پاکستان کی آبادی دنیا کے بہت سے ممالک سے کم ہے لیکن پاکستان کو گنجان آباد ملک کہا جاتا ہے جبکہ ان ممالک کو گنجان آباد ممالک کی فہرست میں شامل نہیں کیا جاتا جن کی آبادی پاکستان سے زیادہ ہے۔ لہذٰاظاہر یہ ہوتاہے کہ اگر کسی ملک کی عوام کے پاس زندگی گزارنے کےلئے بنیادی سہولیات میسر ہیں تو آبادی کتنی ہی زیادہ کیوں نہ ہو اسے گنجان آباد ملک نہیں کہا جا سکتا۔ اس کے برعکس وہ ممالک جن کے پاس بنیادی ضرویات کو پورا کرنے کےلئے زرائع یا وسائل نہیں ان کی آبادی چاہے دیگر ممالک سے کم ہی کیوں نہ ہو ان کا شمار گنجان آباد ممالک میں ہی ہو گا۔ مسئلہ صرف موجودہ دور کی سہولیات کا میسر ہونا نہیں بلکہ ان میں روٹی ، کپڑا ، مکان، صحت کی سہولیات روزگار کا حصول اور انسانیت کے جان و مال کا تحفظ وغیرہ شامل ہیں۔ اگر کسی ملک میں یہ بنیادی ضروریات میسر نہیں ہیں تو کم از کم آج کے دور میں اس ملک کو ایک اپاہج ملک کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔آج دہشتگردی کے ڈر سے کسی اہم شخصیت کے گزرنے کےلئے سڑکوں کو عام عوام سے خالی کر دیا جاتا ہے لیکن اس ملک میں آج سے 15یا20برس قبل عوام کو اسی طرح سڑکوں سے دور بھگادیا جاتا تھا۔ اس وقت تو دہشتگردی نہیں تھی۔ وجہ یہ ہے کہ ہمارے حکمران کس منہ سے اپنی عوام کے بجھے ہوئے چہرے دیگر ممالک کے سربراہان کے سامنے لائیں۔ افسوس کہ ہمارے اس گھر پاکستان کے باسی غربت و افلاس اور بیماریوں کی وجہ سے اس قدر مغموم ہیں کہ ہماری حکومتیں شرم کے مارے ہر دور میں اس عوام کو باقی دنیا سے چھپاتی رہیں۔غربت یا خوشی انسان کے چہرے سے ٹپک رہی ہوتی ہے۔ لہذٰا ہمیں اس غربت کو مل کر ختم کرنا ہو گا اور ملک میں موجود آبادی کو تمام سہولیات ِ زندگی مہیا کرنا ہو نگی۔ حضرت عمر فاروق ؓ کاقول ہے کہ”اگر دریا فرات کے کنارے کتا بھی میرے عہد میں بھوک یا پیاس سے مر جاتا ہے تو میں عمر اس کا جواب دہ ہونگا“۔اس سے کوئی انکار نہیں کہ آج کا انسان بے حد گناہ گار ہے لیکن ہم حضرت عمر فاروقؓ کے نقشے قدم پر چلنے کی کوشش تو کر سکتے ہیں ۔ جب انسان کو شش کرتا ہے تو اللہ اپنے فرشتوں کی فوج اس کی محنت کو چار چاند لگانے کےلئے روانہ کر دیتا ہے۔ مسئلہ کسی گھر میں اولاد کی کمی یا زیادتی کا نہیں بلکہ مسئلہ اس گھر کے سربراہ کی ذمہ داری کاہے ۔ اگر گھر کے سربراہ کو یہ بات باور ہو کہ یہ اولاد اس کی ذمہ داری ہے تو اللہ اسے ضرور ہمت دے گا کہ وہ اپنی اولاد کی کفالت کرسکے۔ لیکن شرط یہ ہے کہ وہ عیاش نہ ہو بلکہ دن رات محنت اور اپنے گھر کی فکر کرنے والا ہو۔ ہمارے حکمران کسی گھر کے سربراہ کی طرح ہوتے ہیں ۔ پوری قوم کو تحفظ اور بنیادی سہولیات کی فراہمی ان کی اہم ذمہ داری ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ موجودہ حالات میں افزائشِ آبادی ایک ایسی چٹان ہے جس کے ساتھ ٹکرا کر تمام امیدیں ریزہ ریزہ ہو جاتی ہیں ۔منصوبہ بندی کمیشن کے مطابق ”پاکستان میں شرحِ اموات میں کمی واقع ہوئی ہے۔اگر شرح ولادت کو کم نہ کیا گیا تو آبادی میں اضافہ خطرناک حد تک پہنچ جائے گا۔ معیشت پر کم عمر افراد کا بوجھ ذیادہ ہو جائے گا اور اس کی وجہ سے معاشی اور معاشرتی ترقی سست ہو جائے گی۔ یا تو آبادی پر کنٹرول کیا جائے یا پھلتی پھولتی آبادی کو وہ تمام ضروریاتِ زندگی عطا کر دی جائیں جو انسان کو عزت کے ساتھ زندگی
گزارنے کےلئے کافی ثابت ہوں“۔ پاکستان کی فی کس آمدنی تقریباََ 2000امریکی ڈالر سالانہ ہے جو کہ ترقی یافتہ ممالک کے مقابلے میں بہت کم ہے ۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان کی فی کس آمدنی امریکہ کے مقابلے میں 66 گُنا کم ہے۔ لہذٰا پاکستانی عوام کے پاس ضروریات زندگی نہ ہونے کے برابر ہیں ۔ اس صورت حال میںاس ملک کو گنجان آباد ہی کہا جائے گا۔ معروف سائنسدان مالتھس کی یہ رائے ہے کہ ”قدرت جب آبادی کی کثرت کو کم کرنا چاہتی ہے تو اس سرزمین پر آفات نازل کر دیتی ہے“۔کہیں ایسا تو نہیں ہو رہا؟۔ غربت ہر برائی کی جڑ ہے۔ آج غربت کی وجہ سے کم آبادی والے ممالک بھی Over populated یعنی گنجان آباد ممالک کی فہرست میں شامل ہو چکے ہیں کیونکہ ان ممالک میں عوام ایک وقت کاکھانا کھانے کے بعد دوسرے وقت کی ناامیدی میں مبتلا پائی جاتی ہے جیسا کہ پاکستان کی تقریباً دو کروڑ آبادی رات کو بغیر کھائے پیئے سو جانے پر مجبور ہے اور لاکھوں کی تعداد میں لوگ بغیر چھت یا گھر کے زندگی گزار رہے ہیں۔ آج غربت کی وجہ سے لوگ اپنی اولادوں کو قتل کر رہے ہیں ۔یقینا یہ بزدلی اور گناہ کبیرہ [ ہے لیکن ان حالات کا ذمہ دار کون ہے حکمران یا اس ملک کا غریب جو اپنی ہر سانس کی قیمت دے کر زندہ رہنے پر مجبور ہے؟۔شبنم شکیل کا ایک خوبصورت شعر کے ساتھ اللہ حافظ۔
زندگی کا کوئی احسان نہیں ہے مجھ پر
میں نے دنیا میں ہر اک سانس کی قیمت دی ہے

اپنا تبصرہ بھیجیں