اُمیدوار کی اہلیت

جمہوری طرزسیاست میں آزادی اظہار رائے کا مطلب ہی قانون کے دائرہ اختیار میں رہ کر آزادی کا حصول ہے جبکہ جمہوری حکومت کا اصل مقصد لوگوں کی فلاح وبہبود اور انکے معیارزندگی کو بہتر بنانے سے وابستہ ہے جس میں جہالت بھوک اورافلاس سے عوام کو چھٹکارہ دلانا اور عوام کی زندگی میں سہولیات پیدا کرنا ہوتا ہے سیاست دانوں کے لیے گفتگو میں شائستگی برقرا رکھنا اور تحمل مزاج ہونا بھی ایک لازمی شرط ہے مگر بدقسمتی سے ہمارے سیاسی کلچر میں کامیاب اور نڈرسیاست دان اسی کو سمجھا جاتا ہے جو سیاست میں غیراخلاقی گفتگو اور دوسروں کی پگڑیاں اچھالے ایسے سیاست دانوں کا طرز عمل صرف جلسے جلوسوں تک محدود نہیں رہتا بلکہ ٹی وی ٹک شوز اورپارلیمنٹ کے اندراجلاس کے دوران بھی بدتہذیبی کا عملی مظاہرہ دیکھنے کو ملتا ہے ایک دوسرے کی ذات پر کیچڑا اچھالنا اورگالم گلوچ کرنا اب ہمارے سیاسی کلچر کا ایک لازمی حصہ بن چکا ہے ہمارے ہاں سماجی اور عوامی سطح پر غیرمہذب گفتگو اور دوسروں پر لعن طعن کرنے پر مذمتی کلمات ادا کرنے کی بجائے خوب انجوائے کیا جاتا ہے کیونکہ ہم ایسے رویوں کے اب عادی ہوچکے ہیں اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ سیاست عوامی خدمت کا دوسرا نام ہے مگر موجودہ طرز سیاست میں سیاستدانوں کی گفتگو سے شریف النفس اور تعلیم یافتہ افراد ملکی سیاست کا حصہ بننے سے کتراتے ہیں تاہم اس سے زیادہ باعث تشویش بات یہ ہے کہ سیاست میں روز بروز غیرپارلیمانی زبان استعمال کرنے کا رحجان بڑھتا جارہا ہے اقتدار سنبھالنے کے بعد بہتر تو یہ ہے کہ عوام کے مسائل پر بھرپور توجہ دی جائے مگرکارگردگی دکھانے کی بجائے سیاسی مخالفین کی جانب سے ایک دوسرے پر لعن طن اور الزامات لگانے کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے اسی کھینچا تانی اورسیاسی کشمکش کے ماحول میں عوامی مسائل پس پردہ چلے جاتے ہیں اقتدار کی جدوجہد میں ہرسیاستدان کے لیے ثقافتی ومذہبی اقدار اورجمہوری روایات کی پاسداری کیساتھ دوسروں کی عذت نفس کا خیال رکھنا بھی اہم نقطہ ہے جبکہ اس سے بھی زیادہ اہم کسی معاشرے کا وہ حقیقی اخلاقی تشخص ہوتا ہے جس پرمعاشرے کی بنیادیں کھڑی ہوتی ہیں اس حوالے سے حسن اَخلاق کا مفہوم اپنے اندر بہت سے وسیع معانی سمائے ہوئے ہے اخلاقی روایات کی پاسداری اور جمہوریت میں عوام کی تنقید کو خندہ پیشانی سے برداشت کرنا ایک اچھے حکمران کی بنیادی خصلتوں میں شامل ہے تاہم ان اصولوں پر کاربند رہنا تو دور کی بات ہے ہمارے سیاسی کلچر میں انکے مدمقابل متضاد الفاظ کا چناؤ اور غیر شائستہ گفتگو کرنا ہمارے لیے زیادہ آسان ہے ملکی سیاست میں موجودہ دور میں اخلاقی اقدار روبہہ زوال ہیں دوسروں کی ذات پر کیچڑ اچھالنا اور عوامی اجتماعات میں برسرعام برا بھلا کہنے کی روایت اچھی نہیں وہ بھی ایسے دور میں جبکہ دنیا بھر میں میڈیا کی ترقی وترویج کے ذریعے براہ راست آپکی آواز دنیا کے طول وعرض میں سنی جارہی ہو اسلام میں سیاست اس عمل کوکہتے ہیں جس کے انجام دینے سے لوگ اصلاح سے قریب تر اورفسادسے دور ہوتے جائیں تاہم ہمارے ہاں سیاست کی تشریح کا پیمانہ کچھ اور ہے موجودہ دور کی گندی سیاست نے انتخابات اور ووٹ کو اتنا بدنام کردیا ہے کہ اب تو شریف لوگ سیاسی میدان چھوڑ کر بھاگنے پر مجبور ہوگئے ہیں جس ملک کی سیاست میں اخلاقی قدریں زوال کا شکار ہوں تو معاشرے پر اسکے منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں سیاست ایک مقدس پیشہ ہے جسکی بنیاد ہی عوامی فلاح اور اخلاقیات پر رکھی گئی ہے مگر غیر شائستہ انداز گفتگو سے سیاست اب گندگی کا تالاب بن چکی ہے تاہم اسکا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ شرفاُ سیاست سے کنارہ کش ہوجائیں جب تک باکردار اور اہل علم افراد سیاست میں
منفی لب ولہجہ سے آراستہ گفتگو کے جمود کو توڑنے کی بذات خود سعی نہیں کرینگے تو اس گندگی میں مزید اضافہ ہوتا چلا جائے گا اور نفرت کی بو سے ہرطرف تعفن پھیلے گا لہذا سیاست کے میدان میں انتخابی عمل کا حصہ بن کر اپنے اخلاق وکردار اور شائستہ گفتگو سے عوام کو اپنی طرف قائل کرکے انکے دل جیتنے کی کوشش کریں اور ملک وقوم کے مسائل حل کریں موجودہ طرزسیاست کو مدنظر رکھتے ہوئے عوام کو بھی چاہیے کہ وہ سیاسی عمل کے زریعے ایسے باکردار نمائندوں کو اقتدار کے ایوانوں تک لے کر آئیں جنکے دل میں احترام انسانیت اور ملک وقوم کی بہتری کا احساس ہو ہمارے عظیم مفکر علامہ محمد اقبال نے اپنے ایک لیکچر میں روحانی جمہوریت کا ذکر کیا تھا آپ مغربی طرز جمہوریت کے خلاف تھے اور چاہتے تھے کہ جمہوریت اسلام کے سنہری اصولوں اور اسلامی اخلاقیات پر مبنی ہوانہوں نے 28 مئی1937ء کو قائداعظم کے نام ایک خط میں تحریر کیا تھا کہ اسلام کے قانونی اصولوں کے مطابق کسی مناسب شکل میں سماجی جمہوریت کو قبول کرلینا کوئی انقلاب نہیں ہے بلکہ اسلام کی اصل روح کی جانب لوٹنا ہی حقیقی جمہوریت ہے اس و قت ہم ملک میں فیوڈل جمہوریت کے تماشے دیکھ رہے ہیں جمہوریت کا یہ ماڈل چونکہ اسلام کی روح اور اسکی تعلیمات کے مطابق نہیں ہے اس لیے یہ ماڈل ہمارے مسائل حل کرنے کی بجائے ان میں مسلسل اضافہ ہی کرتا جارہا ہے لہذا انتخابات میں حصہ لینے والے اُمیدوار کی اہلیت جانچنے کے لیے انکا محب وطن با کردار بااخلاق اوردیانتدار ہونا بھی لازمی شرائط ہونی چاہیے تاکہ عوام کو انتخابات کے موقعہ پر ہر امیدوار کی اہلیت کو جانچنے پرکھنے میں کوئی مشکل پیش نہ آئے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں