42

اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے

ہال حاضرین سے کچھا کچھ بھرا تھا‘ مقررین اپنے اپنے انداز میں ”شرح خواندگی میں بہتری کی بجائے ابتری کیوں“ کے موضوع پر اظہار خیال کرتے رہے‘

شرکاء تالیوں اور واہ واہ کے الفاظ سے انہیں داد تحسین پیش کر رہے تھے مگر میرے ساتھ پہلی نشست پر براجمان شخص کے چہرہ پر بالکل خاموشی چھائی رہی۔

ان کی باتوں کو سنی ان سنی کرتے رہے‘ محسوس ہوا کہ شاید انہیں مقررین کے الفاظ میں درد کی بجائے اپنی شخصیت کو نمایاں کرنا مقصود تھا۔ داد دینے کے لیے ان کے ہاتھوں میں کوئی سکت پیدا ہوئی اور نہ زبان سے تعریفی کلمات نچھاور ہوئے۔

ان کی مسلسل خاموشی نے مجھے عجیب کوفت میں مبتلاء کئے رکھا، گمان ہوا کہ بھائی صاحب کسی گھریلو یا کاروباری پریشانی میں مبتلاء ہیں‘ ان کا جسم تو ادھر لیکن دل و دماغ کہیں اور مصروف ہے۔

سٹیج پر تشریف فرما مہمان گرامی اپنے خیالات کا اظہار کرچکے تھے، ادارہ کے صدر معلم اور مہمان خاص اپنے خیالات کا اظہار کرنے کے لیے سٹیج کی جانب بڑھے تو شرکاء نے تالیوں کی گونج میں ان کا پرجوش استقبال کیا

لیکن موصوف کا اس بار بھی چپ کا روزہ نہ ٹوٹا لیکن جیسے ہی مہمان خصوصی نے اپنی بات کا آغاز کیا ”میرا مشاہدہ ہے کہ غربت ہی شرح خواندگی کی بنیادی وجوہات میں سے ایک بڑی وجہ ہے

بڑھتی ہوئی مہنگائی نے غریب والدین کے لیے بچوں کی دو وقت روٹی روزی کا بندوبست کرنا مشکل بنا دیا وہ ان حالات میں سکول یونیفارم، شوز، فیسز اور دیگر تعلیمی اخراجات کس طرح برداشت کر سکتے ہیں

ادارہ ہذا میں بھی ایسے بے شمار طلباء زیر تعلیم ہیں جن کے پاؤں میں جوتے تک نہیں آپ خود سوچیں ایسے والدین بچوں کا تعلیمی تسلسل کس طرح جاری رکھ سکتے ہیں“ مجھے افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے

کہ کچھ طالب علم ایسے بھی ہیں جو چھٹی کے بعد بازار میں ریڑھی لگا کر اپنے تعلیمی اور گھریلو اخراجات پورا کرنے کے لیے والدین کا ساتھ دے رہے ہوتے ہیں۔

ان کا خطاب ابھی جاری تھا مجھے محسوس ہوا کہ بھائی ان کی باتوں میں پوری طرح کھو گئے ہیں ایک ایک لفظ کو دل پر لے رہے ہیں خطاب مکمل ہوا وہ اپنے نشست پر کھڑے ہوئے

سٹیج سیکرٹری کی اجازت سے صدر معلم صاحب کے پاس پہنچ گئے‘مصافحہ کرتے ہوئے غریب طلباء کے لیے رقم عطیہ کرنے بارے بتایا انہوں نے میک ان کے حوالے کرتے ہوئے

کہا کہ آپ خود سے اس کا اعلان اور اپنے تاثرات بھی بیان کریں۔ عبدالحلیم نام سے اپنا تعارف کرواتے ہوئے کہا کہ میں ایک مزدور لکڑہارے کا بیٹا ہوں‘ والدین نے محنت و مزدوری سے میرے لیے تعلیم آسان بنائی‘ میری زندگی کا بھی دسمبر‘جنوری کی یخ سردی میں ننگے

پاؤں سکول جانے کا عملی تجربہ ہے‘ اس لیے ہیڈ ماسٹر صاحب کی بات سے اتفاق کرتا ہوں کہ غریب مزدور کسی مشکل سے اولاد کو زیور تعلیم سے آراستہ کرتا ہے‘ مجھے یہ بھی یاد ہے

کہ زمانہ طالب علمی میں اور میرا غریب دوست کالج ٹور میں محض پچاس روپے نہ ہونے کی بناء پر تاریخی مقام کی سیر سے لطف اندوز اور مستفید ہونے سے رہ گئے تھے جس کا ملال شاید رہتی زندگی تک رہے۔

دوران تقریر صدر معلم کے الفاظ کے نقوش میرے دل و دماغ میں ثبت ہو رہے تھے ماضی میں کھو جانے کی وجہ سے آنکھیں آنسوؤں سے بھر چکی تھی

والدین کی شب وروز کی محنت اور دعاؤں کی بناء پر آج الحمد للہ میں اپنے پاؤں پر کھڑا ہو چکا ہوں کاروبار میں ترقی کی بناء پر اللہ تعالی’ نے دینے والوں کی فہرست میں شامل کرلیا ہے

اور پھر اس نوعیت کی تقریب میں ضمیر اجازت نہیں دے رہا کہ ادارہ میں بے شمار طالب علم میرا بچپانہ لیے زیر تعلیم ہیں پھر میں اپنی استطاعت کے مطابق انکی مدد نہ کروں

‘ اللہ کے فضل و کرم اور توفیق سے اس قابل ہوا کہ غریب طلباء کی ضروریات پوری کرنے کے لیے ادنی’ سا حصہ ڈال کر مجھے روحانی خوشی ہورہی ہے

عبدالعلیم صاحب سٹیج سے واپس نشست کی جانب آئے تو ان کی کاوش کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے احتراما کھڑا ہو گیا تو ان کے چہرہ پر مسکراہٹ کی ایک جھلک نمایاں ہوئی

‘ ہاتھ سینے کی جانب لے جاتے ہوئے انہوں نے اظہار تشکر کیا‘تشریف فرما ہوئے تو ان سے گفتگو اور پوچھنے کا موقع مل گیا کہ آپ جیسے غریب آدمی کے لیے کیسے ترقی وکامیابی کے دروازے کھلے؟

اس سوال سے پہلے ہی شاید وہ میری ابزرویشن جان چکے تھے گویا ہوئے تعلیم و مطالعہ ہی کامیابی کا پہلا زینہ ہے انسان اپنی سمت کا تعین کرلے اور پھر ایمانداری سے اپنے نصب العین کے لیے تگ ودو کرتا رہے

‘ صبر کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑے تو کوئی شک نہیں کہ کامیابی کی منزل اس کا ضرور استقبال کرے گی۔بات کو آگے بڑھاتے ہوئے بولے جب دوران طالب علمی گیارہویں جماعت کے نصاب میں شامل انگلش کی کتاب میں امریکی صدر ابراہم لنکن کے بارے میں پڑھنے کو ملا کہ اس کے والد ایک چھوٹے کاشتکار تھے

ان کے پاس ریاست کنٹکی میں تھوڑی زمین تھی جہاں پر وہ اپنا فارم چلاتے تھے۔ لنکن جب دو سال کے تھے تو ان کے والد اپنی زمین کے حوالے سے ایک مقدمہ ہار گئے

اور ان کے پاس یہ فارم بھی نہ رہا اس کی فیملی اس موقع پر ریاست انڈیا منتقل ہو گئی۔ ان کا بچپن ایک غریب فارم پر گذرا جہاں زندگی اتنی آسان نہیں تھی

اور ان کے دن اپنے باپ کے ساتھ محنت مزدوری میں گزرتے تھے۔ انھوں نے اپنی نوجوانی میں کئی چھوٹے کاروبار کرنے کی کوشش کی۔ اپنی عمر کی 20 کی دہائی میں انھوں نے ایک جنرل سٹور کھولا جو بالکل ناکام ہو گیا

کیونکہ اس میں ان کے بزنس پارٹنر انتقال کر گئے اور دکان کھولنے کا سارا قرضہ لنکن پر آ پڑا مگر ابراہم لنکن کی شخصیت میں مشکلوں سے لڑنا کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔

انہوں نے وکالت کی تعلیم خود ہی پڑھنا شروع کی اور اپنے آپ کو غربت سے نکالا۔ وہ ریاست النائے کے کامیاب وکلاء میں سے ایک بن گئے۔ بعد میں جب وہ سیاست میں آئے

تو اسی ہمت نہ ہارنے والی شخیصت نے انھیں امریکا کو بچانے میں مدد کی۔ ایسی ہمت شاید شدید غربت سے ہی آتی ہے۔ جب ابراہم لنکن صدر بنے تو ان کے والد ایک جوتا ساز یعنی موچی تھے

امتحان کی تیاری کے لیے میں نے لنکن کے بارے میں بار بار پڑھنے سے میرے اندر ایک سوچ پروان چڑھی کہ اگر موچی کا بیٹا محنت کرکے امریکہ جیسی بڑی ریاست کا صدر بن سکتا ہے

اللہ تعالی’ نے ہر انسان کو بے شمار صلاحتیوں کے ساتھ پیدا کیا ہے اگر وہ ان خفیہ صلاحتیوں کو بروئے کار لاتے ہوئے محنت کرے تو بڑے سے بڑا کارنامہ سرانجام دے سکتا ہے۔

آج معاشرہ میں بے شمار ذہین و فطین بچے موجود ہیں جو غربت کی وجہ سے تعلیمی اداروں کی بجائے ہوٹلوں، ورکشاپوں میں مزدوری، کچرا کے ڈھیروں سے روزی یا بھیگ مانگنے جیسی برائیوں کا شکار ہو کر اپنا اور خاندان کا پیٹ پال رہے ہیں‘ یہی نونہال قوم کے معمار ہیں

‘ ان پرتھوڑی سے توجہ نہ صرف ان کے خاندان کا مستقبل درخشاں ہو سکتا ہے بلکہ ملک و قوم کی تقدیر بدل سکتی ہے
آئیں معاشرہ میں ایسے بچوں کے سر پر دست شفقت رکھیں ان کے تعلیمی اخراجات کو اپنے ذمہ لیں

تاکہ مستقبل میں آج کے یہ نونہال بھی دینے(خرچ) والوں کی فہرست میں شامل ہونے کے قابل ہوجائیں۔ چونکہ حدیث نبویﷺ ہے کہ ”اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے،اور اوپر والا ہاتھ خرچ کرنے والا ہاتھ ہے اور نیچے والا ہاتھ مانگنے والا ہاتھ ہے“

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں