امین/عبدالجبار چوہدری

امین کا مطلب ہے امانت دار،امانت دار وہ ہوتا ہے جوکسی کی چیز کو پوری ذمہ داری اور حفاظت سے اپنے پاس رکھے ،مناسب وقت اور وعدہ کے مطابق اس کو لوٹائے۔ہمارے پیارے نبیؐ آخرالزماں ایک دفعہ بلند پہاڑ پر تشریف فرما ہوئے تمام کفار مکہ اکٹھے ہوگئے

آپؐ نے ان کو مخاطب کیا اور فرمایاپہاڑ کی دوسری طرف ایک لشکر حملہ آور ہونے کے لیے تیار ہے تو کیا یقین کر لو گے انہوں نے بیک زبان ہو کر کہا کیوں نہیں ہم نے آج تک آپؐ کو صادق (سچا) اور امین پایا ہے۔ہمارے پیارے نبیؐ نے کفار مکہ کے ظلم ستم سے تنگ آکر مدینہ کی طرف ہجرت کی تو اس وقت آپؐ کے پاس بہت سے لوگوں کی طرف سے بطور امانت رکھی گئی چیزیں تھی جن پر آپؐ نے مولائے کائنات حضرت علیؓ کو امین بنایا

آپؓ نے ہر قسم کے خطرہ کی پرواہ نہ کرتے ہوئے رات آپؐ کے بستر پر گزاری۔ اور اگلی صبح تمام امانتیں متعلقہ لوگوں کو واپس کیں اور پھر عازم سفر مدینہ ہوئے۔امین ہونے کا تعلق صرف مال و دولت سے نہیں ہے اس کا دائرہ بہت وسیع ہے قول کہنے یعنی بات کہنے سننے میں سچا ہونا بھی امانت کہلاتا ہے

کیونکہ صحیح چیز پوری دیانت داری سے پہنچانے کی ذمہ داری نبھاتا ہے جب کسی کا ایسا راز معلوم ہو جائے جس کے افشاء ہونے سے اسے نقصان پہنچ سکتا ہو تو بھی امانت کا تقاضا ہے کہ وہ اس کو اپنے سینے میں تادم مرگ دبائے رکھے کسی جرم یا قتل کوکرتے دیکھا تو صادق اور امین شخص کی یہ ذمہ داری ہے کہ جب ضرورت پڑے ،عدالت بلائے تو پوری دیانت داری اور سچائی کے ساتھ گواہی دے چاہے اس کی جان ہی چلی جائے۔کسی کے عیب سے مطلع ہونا بھی ا مانت داری کے لیے ایک آزمائش ہوتی ہے وہ اس کے عیب کو دوسرے لوگوں پر بلاوجہ ظاہر نہ کرے کیونکہ اس فعل سے عیب دار شخص کو زندگی کے کسی موقع پر شرمندگی اٹھانا پڑ سکتی ہے۔

مرنے والے شخص کو غسل دینے والا ،قبر میں اتارنے والا بھی امین ہوتا ہے باتیں اس پر ظاہر ہوتی ہیں انہیں دوسروں تک نہ پہنچائے اور نہ بعد میں کسی کے سامنے بیان کرے وقت نزاع کے احوال بھی ظاہر نہ کئے جائیں ۔ان سب باتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے آج کے حالات کا جائزہ لیتے ہیں تو ہم اپنے آپ کو کہاں پاتے ہیں ہماری محفلیں ایک دوسرے پر الزامات,بہتان طرازی سے خالی نہیں ہیں ہمارے لین دین مطلوبہ امانت کے معیار پورا نہیں اترتے

۔ایک دوسرے یک عیب کھلم کھلا بیان کر دیتے ہیں۔کسی کی عزت کا خیال نہیں,ہمارا موضع سخن ،مل بیٹھ کر بات کرنے کا ڈھنگ غیبت سے خالی نہیں ہے ۔ہاتھوں کی امانت ،نگاہوں کی امانت اور زبان کی امانت سب سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں.اچھے خاصے متوازن زندگی کے مالک جن کو مالی ،معاشی،روزگا کی آسودگی حاصل ہے وہ بھی اس سعی میں لاحاصل میں مصروف دکھائی دیتے ہیں,اس کی وجہ سے اوقات برباد ہو رہے ہیں اپنے آپ پر غور کرنے کا وقت ہی نہیں ہے جب اس پر تیار نہیں تو کسی استاد ،مربی کے پاس جا کر چند ہدایت کی باتیں اور اصول سیکھنے کا سوال کیسے پید اہو سکتا ہے ۔مایوسی گناہ ہے ان حالات سے اس قدر دلبرداشتہ نہیں ہونا چاہیے بلکہ وقت نکالناچاہیے اپنے آپ کو سب سے پہلے ضمیر کی عدالت میں پیش کر کے خود احتسابی کی سولی پر لٹکا کر ہم امین ہونے کی منزل پاسکتے ہیں ۔

اس کے لیے ہمیں کاروبار،کالج،سکول،گھر کے کام کاج اور زمینداری کچھ بھی نہیں چھوڑنا پڑتا ان سارے کاموں کے اندرہی یہ کام ہو سکتا ہے ۔قومی سطح پر آج کل بڑی شد و مد سے بحث جاری ہے ایک دوسرے کو جھوٹا بددیانت ثابت کرنے کے لیے زور دار مہم جاری ہے ملک کی سب سے بڑی عدالت اور سب سے بڑے جج کی سربراہی میں مقدمے کی سماعت جاری ہے ۔ٹیلی ویثن سکرینیں نئی کہانیاں ،نئے نئے انداز اور قوی العقل دلائل لوگوں کا سنا رہی ہیں۔

آئین پاکستان بھی اپنی دفعات میں صادق اور امین کی تشریحات کرتا ہے اور ایک حکمران کے لیے پیمانہ مقرر کرتا ہے اس ساری صورتحال میں بہت کچھ ہم کھو رہے ہیں اور اگر جرات مندوں کا مظاہرہ ہوا تو شاید بہت کچھ حاصل ہو صادق اور امانت کی ضد جھوٹ اور خیانت ہیں بلاشبہ جب کوئی صادق (سچا)نہیں ہو گا تو وہ جھوٹا ہو گا اور جب کوئی امانت دار نہیں ہو گا تو وہ خائن ہوگا ہمارے حکمران تاریخ بنانے اور بگاڑنے کے دوراہے پر آچکے ہیں اب اگر کچھ چھپانے یا بچانے کی کوشش کی گئی

تو شاید تاریخ ہمیں کبھی معاف نہ کرے گی۔اعتراف حقیقت دراصل سچائی کی جانب سفر ہوتا ہے اور یہی سچائی اور امانت کی بنیاد بنتاہے اعتراف ذات کو بھی فائدہ پہنچاتا ہے اور دائمی زندگی کو بھی سنوارتا ہے رب ذوالجلال سے دعا ہے کہ ہمیں سچی توبہ کی توفیق نصیب فرمائے تاکہ اسلام کے اصول و قوانین کے مطابق زندگی گزارنے میں کامیاب ہوں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں