امروز ایک حقیقت

ہم جس معاشرے میں سانس لے رہے ہیں اس کا بھی ایک اپنا ہی انداز ہے۔ اس کے افراد کہیں محو حیرت ہیں کہیں فخرکے سحر میں مسحور تو کہیں خوشی و تاسف کی متضاد کیفیات کا شکار ہیں۔ ایک بات جو ہمیں دیگرمعاشروں سے ممتاز کرتی ہے وہ یہ ہے کہ ہر فرد نکتہ چینی میں ایک ملکہ رکھتا ہے۔ ہمارا معاشرتی فردہر اس کام میں Specialist ہے جو اس کے ذمے نہیں ہوتا اور جو کام اس کے ذمے ہوتا ہے اس کے حروف تہجی تک سے ناآشنا ہوتا ہے۔

در حقیقت ہماری قومی سوچ مفقود ہو کر ذاتی و نسبی، لسانی و علاقائی عصبیت تک محدود ہو چکی ہے یہی ہماری معاشرتی۔ اخلاقی اور اقتصادی زبوں حالی کا اصل سبب ہے اورمثل افیون ہے۔یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ کسی فرد یامعاشرے پر زوال خود بخود نہیں آتا بلکہ خودلایا جاتاہے ہمارا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ ہم حال میں رہنا پسند نہیں کرتے۔

حال اگر چہ ہمیں بے حال کر دے مگر ہم ماضی کے سحر سے نہیں نکلتے۔ ہم بنیادی طور پر ماضی پر ست واقع ہوئے ہیں ہم ماضی سے محبت تو کرتے ہیں مگر اس سے سیکھتے نہیں اور ماضی کی غلطیوں سے سیکھ کر حال کو سدھارتے نہیں مگر حال کو فضول سوچوں سے تباہ شدہ ماضی کی طرح ضروربناتے چلے جاتے ہیں ہاں اتنا ضرور کرتے ہیں کہ محنت کیے بغیر روشن اور تابناک مستقبل کے خواب ضرور دیکھتے ہیں۔

ہمیں حال پر یکسر رحم نہیں مگر ماضی و مستقبل سے بے انتہا محبت ہے کیا عجیب بات ہے کہ ہم آج جس حالت میں ہیں وہ ہمیں ایک آنکھ نہیںبھاتی اور کل اس حالت کو رشک کی نظر سے دیکھ رہے ہوتے ہیں ہم اپنی کو تاہی یا ناکا می پر کبھی خود کو مورد الزام نہیں ٹھہراتے ساراقصور حاسدین اور دیگر تو ہمات پر مبنی تصورات پر ڈال کر سکون کی نیند سو جاتے ہیں ہم دراصل اپنی ناکامی میں پوشیدہ اسباب نہیں تلاش کر تے بلکہ افراد تلاش کر تے ہیں

اسباب جان کر ہم ان کا تدارک نہیں کرتے بلکہ حاسدین پر الزام دھرکر انتشار کا شکار ہو جاتے ہیں یا پھر تقدیر کا لکھا جان کر تشفی محسوس کر تے ہیں ہمیں حال کی فکر نہیں کیونکہ ہمیں وقت کی قدرنہیں ہم قدرت کی طرف سے ملنے والے مواقع گنواکر اور وقت کو بے دردی سے ضائع کر کے ہوش کے ناخن لے کر مستقبل کی پلک نوک سنوارنے کی بجائے نا تمام حسرتوں کے ماتم میں بلقان ہو جاتے ہیں اور حال جوں کا توں ہی رہتا ہے

ہم وقت پر کام نہیں کر تے اور بے وقت واوپلہ ضرور کر تے ہیں معاشرے میں ایسے لوگوں کو دیکھا گیا ہے جنھیں بچپن اور لڑکپن میں جب ان کے پاس پڑھنے کا وقت تھا تب شوق ندارد،سکول جیل اور اساتذہ جلا د دکھا ئی دیتے ہیں ان کی سوچ عین شباب کے عالم میں یکسر تبدیل ہو جاتی ہے پڑھائی کا شوق بیدار ہو جاتا ہے مذکورہ بالا جیل مقدس جگہ اور جلاد فرشتوں کے روپ میں جلوہ گر ہوتے ہیں سوچ میں انقلاب آتا ہے مگر بے سود.. کچھ عرصہ قبل شعبہ تعلیم سے تین دہائیوں تک وابسطہ رہنے والے ایک سابق معلم صاحب نے ریٹاٹر منٹ کے تین سال بعد اعتراف کیا کہ میں نے اپنی زندگی کے تیس سال ضائع کیے

میں اپنے مقدس پیشے سے دیانت نہ کر پایا جس کا مجھے ازحد افسوس ہے مزید براں مبلغانہ انداز میں دیگر احباب سے فرمانے لگے آپ میر ی طرح اپنی زندگی کو ضائع نہ کیجئے گا آپ کے پاس قوم کے بچے ہیں آپ ان کے ذمہ دار ہیں وغیرہ وغیرہ کیا اس اعتراف کا کچھ فائدہ ہے کیاان کا بھاشن مو ثر ہو سکتا ہے با کیاوہ اس کے مجاز ہیںیہ محض بے وقت کی راگنی اور ذود پشیمانی کے مصداق ہے یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ ماضی کے جوانوں اور حال کے بوڑھوں کی زندگی میں ایسا ہی تضاد ہوتا ہے جیسا کہ جنت اور جہنم میں جیسا کہ شیطان اور فرشتہ میں المختصر ہم وقت کی اہمیت سے نابلد ہیں

جب تک ہم وقت کی قدر نہیں کر یں گے تب تک مہذب اقوام کی صف میں شمار نہیں ہو ں گے ہمارا شباب اور بڑھاپا یکساں اقکار واعمال کا آئینہ ہونا چایئے ہم اپنا حال بدلیں گے تو مستقبل خود بخود بدل جائے گا بطوررمسلمان ہم ماضی کے مسلمان حکمرانوں اور سائنس دانوں پر فخر کرتے اور اتراتے دکھائی دیتے ہیں ہم یوسف بن تاشفین صلاح الدین ایوبی، محمد بن قاسم اور ٹیپو سلطان کا ذکر سبسنہ تان کر کرتے ہیں تاریخ شاہد ہے کہ ان کے مخالفین بھی ان کی صلاحیتوں اور شجاعت کے معترف اس لئے تھے کہ انہوں نے اپنے حال پر کام کیا اور پھر اپنے مقصد کو دنیا بھر میں پھیلا یا یوں انہوں نے اسلام کی عظمت کے سورج سے کل عانم کو منور کیا بحثیت قوم ہمیں اس پر فتن دور میں چاہیے کہ اپنی تمام تر توجہ اپنے حال پر مرکوز کریں اپنا آج قربان کریں تا کہ ہمارا کل روش ہو ماضی کی غلطیوں سے سیکھیں اور مستقبل کو سنواریں بقول اقبال
وہی ہے صاحب امروز جس نے اپنی ہمت سے
زمانے کے سمند ر سے نکالا گو ہر فردا

اپنا تبصرہ بھیجیں