اظہارِ تشویش
تحریر۔چوہدری عامر کمبوہ
عالمی طاقتیں صرف ”اظہارِ تشویش” تک محدود ہیں۔یہ وہ روایتی فقرہ ہے جو ہر ظلم کے بعد اقوامِ متحدہ، یورپی یونین یا امریکی دفترخارجہ کی طرف سے جاری کیا جاتا ہے۔ غزہ پر بم گرتے ہیں، بچے ملبے تلے دفن ہوتے ہیں، مائیں چیخ چیخ کر دنیا کو جھنجھوڑتی ہیں، مگر عالمی ضمیر صرف ایک رسمی بیان جاری کر کے اپنی ذمہ داری پوری سمجھ لیتا ہے۔یہ ”تشویش” ایک ایسا لفظ بن چکا ہے جو صرف مظلوموں کو چپ کرانے کے لیے استعمال ہوتا ہے،
نہ کہ ظالموں کو روکنے کے لیے۔ جب غزہ میں لاشوں کے ڈھیر لگتے ہیں تو ایک ”تشویش” ہی کافی سمجھی جاتی ہے۔یہ ایک ایسا جملہ ہے جو آج کی دنیا کے سب سے بڑے جھوٹوں میں شمار ہوتا ہے۔ ہر بار جب فلسطین جلتا ہے، غزہ پر آگ و بارود برستا ہے، جب ماؤں کی گودیں اجڑتی ہیں اور بچے خاک میں لپٹے نظر آتے ہیں تو اقوام متحدہ، یورپی یونین اور مغربی دنیا کے درجنوں سفارت خانے حرکت میں آتے ہیں مگر صرف ایک ”بیان” کے لیئے۔ہم صورتحال پر گہری تشویش رکھتے ہیں، تحمل کا مظاہرہ کریں۔
”گویا قاتل اور مقتول برابر ہیں۔ گویا وہ معصوم بچہ جو ملبے تلے آ کر دم توڑتا ہے، وہ بھی کسی ”تنازع” کا برابر فریق ہے۔ یہ ”تشویش” دراصل منافقت کا پردہ ہے، ایک سیاسی چادر جس سے ظلم کو ڈھانپنے کی کوشش کی جاتی ہے۔جب کسی مغربی ملک میں حملہ ہوتا ہے، یا کسی ترقی یافتہ قوم کے شہری پر آنچ آتی ہے، تو دنیا یکدم چیخ اٹھتی ہے۔
انسانی حقوق کے ادارے، اقوام متحدہ، عالمی میڈیا، اور حکومتیں، سب کے سب حرارت سے لبریز بیانات جاری کرتے ہیں۔ ہر طرف ”انسانی جان کی حرمت” کا واویلا ہونے لگتا ہے۔ جیسے پوری دنیا کو اچانک یاد آ گیا ہو کہ خونِ انسانی، رنگ، نسل، قوم یا مذہب سے بالا تر ہوتا ہے۔مگر غزہ، شام، یمن، عراق، کشمیر، یا روہنگیا میں جب انسانی جان سستی ہو جاتی ہے۔ جب بچوں کے جسم ٹکڑوں میں بٹ جاتے ہیں، جب ماؤں کی گودیں اجڑتی ہیں،تو دنیا صرف ”اظہارِ تشویش” پر اکتفا کر لیتی ہے۔
یہ دہرا معیار کب تک؟کیا فلسطینی ماں کے آنسو مغربی ماں سے کم قیمتی ہیں؟کیا غزہ کے بچوں کا خون رنگین نہیں؟کیا مظلوم کی چیخیں اس لیے بے وزن ہیں کہ وہ دنیا کے کمزور خطے سے تعلق رکھتا ہے؟ہم ایک ایسی دنیا میں جی رہے ہیں
جہاں طاقتور کا درد ”انسانی مسئلہ” بن جاتا ہے اور کمزور کی لاش محض ایک ”اعداد و شمار” کا حصہ۔یہ کیسی تشویش ہے جس سے نہ ظالم رک رہا ہے، نہ مظلوم بچ رہا ہے؟یہ کیسا انصاف ہے جو قوموں کی رنگت، مذہب اور مفادات کے پیمانوں پر تولا جاتا ہے؟
حقیقت یہ ہے کہ یہ تشویش صرف وقت گزارنے کا ذریعہ ہے، وہ بھی اُن کے لیے جو طاقتور کے ساتھ کھڑے ہونے کو ہی عقل مندی سمجھتے ہیں۔ اور اس ساری خاموشی کا ایک ہی نتیجہ نکلتا ہے”مزید لاشیں، مزید چیخیں، اور مزید تشویش”
دنیا جدید ٹیکنالوجی، ترقی اور انسانی حقوق کے بلند و بانگ دعوؤں سے گونج رہی ہے، مگر غزہ کے مظلوم مسلمان آج بھی زمین پر ظلم کی سب سے بھیانک تصویر بنے ہوئے ہیں۔ فلسطین کا یہ چھوٹا سا خطہ برسوں سے آگ، بارود اور خون میں نہایا ہوا ہے۔ بچوں کی لاشیں، ماؤں کی آہیں، اور گرتی ہوئی مساجداب معمول کی خبر بن چکی ہیں۔
غزہ میں زندگی ایک قید بن چکی ہے۔ نہ خوراک میسر ہے، نہ دوا، نہ پانی، نہ پناہ۔ اسپتال ملبے میں دبے ہوئے ہیں، اسکول میدان جنگ بن چکے ہیں، اور اقوامِ متحدہ کے ادارے محض بیانات جاری کرنے تک محدود ہو چکے ہیں۔ اسرائیلی بمباری کے دوران معصوم بچے شہید ہوتے ہیں اور دنیا صرف گنتی کرتی ہے۔ ہر دھماکہ انسانیت کے ضمیر پر ایک زوردار طمانچہ ہے،
جو ہمیں جھنجھوڑنے کے بجائے مزید بے حس کر دیتا ہے۔غزہ میں اسرائیلی بمباری، بارود اور تباہی کے مناظر اس خطے کی پہچان بن چکے ہیں۔ گلیوں میں معصوم بچوں کی لاشیں بکھری پڑی ہیں، ماؤں کی سسکیاں فضا میں گونج رہی ہیں، اور دنیا” خاص طور پر مسلم دنیا” ایک بار پھر خاموش تماشائی بنی بیٹھی ہے۔
گزشتہ چند ہفتوں سے جاری اسرائیلی حملوں نے سینکڑوں معصوم فلسطینیوں کو شہید کر دیا ہے۔ تباہ شدہ اسپتال، ملبے کا ڈھیر بنے اسکول، اور خون میں لت پت مساجد یہ بتانے کے لیے کافی ہیں کہ یہ صرف جنگ نہیں، بلکہ نسل کشی ہے۔ایسے میں اقوام متحدہ اور عالمی طاقتیں صرف ”اظہارِ تشویش” تک محدود ہیں۔
انسانی حقوق کے علمبرداروں کی زبانیں گنگ ہیں، اور میڈیا کیمرے صرف اس وقت متحرک ہوتے ہیں جب بات اسرائیلی نقصان کی ہو۔
سوال یہ ہے کہ کیا فلسطینی انسان نہیں؟ کیا ان کے خون کی کوئی قیمت نہیں؟ کیا ان کے بچے وہی خواب نہیں دیکھتے جو کسی مغربی ملک کے بچے دیکھتے ہیں؟آئیے ہم سب مل کر صرف درد کو نہیں، ضمیر کو بھی جھنجھوڑنے کی کوشش کرتے ہیں۔ غزہ میں صرف جسمانی نہیں، اخلاقی قتل بھی ہو رہا ہے اور یہ قتل ہم سب کی خاموشی سے ہو رہا ہے۔
مسلمان ممالک کے حکمرانوں کی مجرمانہ خاموشی اور عوام کی وقتی جذباتی لہر کے بعد طویل بے حسی، اس ظلم کو مزید طاقتور بنا رہی ہے۔ ہمیں فیصلہ کرنا ہوگا کہ ہم مظلوم کے ساتھ کھڑے ہوں گے یا خاموش رہ کر ظالم کی پشت پناہی کریں گے۔عالمی طاقتیں صرف طاقتور کا ساتھ دیتی ہیں،
اور مسلمانوں کے خون کو ارزاں سمجھا جاتا ہے۔ کیا کسی یورپی ملک پر یہی ظلم ہوتا تو عالمی برادری بھی اسی طرح خاموش رہتی؟ کیا تب بھی ”سیز فائر کی اپیل” تک محدود رہتی دنیا؟غزہ میں نہ صرف انسان مر رہے ہیں بلکہ انسانیت بھی دم توڑ رہی ہے۔ اور سب سے بڑا سوال ہم مسلمانوں سے ہے کہ ہم کیا کر رہے ہیں؟ہماری دعائیں، ہماری آواز، ہمارا بائیکاٹ، اور ہمارے دلوں کا درد سب سے بڑا ہتھیار بن سکتے ہیں۔ ہمیں دنیا کو یہ پیغام دینا ہوگا کہ ہم غزہ کے ساتھ ہیں، ہم مظلوموں کی حمایت میں کھڑے ہیں،
اور ہم ظالم کے خلاف ہر میدان میں آواز بلند کریں گے۔غزہ آج ہم سب سے سوال کر رہا ہے۔ یہ سوال صرف فلسطین کا نہیں، بلکہ پوری امتِ مسلمہ کا امتحان ہے۔ اگر آج ہم خاموش رہے، تو کل ہماری خاموشی ہماری بزدلی کی گواہی دے گی۔
آئیں اپنے قلم، اپنے الفاظ، اپنی دعاؤں اور اپنی عملی کوششوں سے غزہ کے لیے ایک مؤثر آواز بنیں۔ کیونکہ خاموشی، کبھی کبھی گناہ بن جاتی ہے۔