آپ کا جسم پوری طرح چوکنا ہے، جیسے کسی جنگی مورچے میں مستعد سپاہی۔ رگ و پے میں دوڑتی توانائی، شاید ایسی جس کا پہلے کبھی تجربہ نہ ہوا ہو، اس وقت آپ کو ناقابلِ یقین چستی کا احساس دلا رہی ہے۔ مگر اس ظاہری پھرتی، اس مصنوعی ارتکاز کے پیچھے، آپ کا ذہن نیم مردہ ہے—خیالات مسخ شدہ، بکھرے ہوئے، اور حقیقت سے دور۔ جیسے شعور کو کسی جعلی جنت میں قید کر دیا گیا ہو۔
ایک عام شخص اسے بھیانک خواب سمجھے گا—لیکن افسوس، یہ بہت سوں کی روزمرّہ حقیقت ہے۔ اور شاید یہ اُن کے غیر سنجیدہ، لاپرواہ فیصلوں کا خمیازہ ہے۔ یہ… ‘آئس’ کا انجام ہے۔ میتھامفٹامین، جو ابتدائی طور پر بیسویں صدی کے اوائل میں طب کے میدان میں متعارف ہوئی، ایک ایسی دوا تھی جس کا مقصد توجہ کی کمی کے شکار مریضوں کا علاج اور دوسری عالمی جنگ کے دوران فوجیوں کو جاگتا رکھنے کے لیے کیا گیا تھا۔ لیکن جیسے ہی اس کے اندر چھپے ہوئے خطرات اور اس کی لت لگانے والی خصوصیات نمایاں ہونے لگیں،
اس کا استعمال تفریحی مقاصد کے لیے بڑھنے لگا، اور یوں یہ دنیا بھر میں ایک بڑے بحران کی شکل اختیار کر گیا۔ 1990 کی دہائی میں یہ دوا خاص طور پر جنوب مشرقی ایشیا میں آسانی سے دستیاب ہونے لگی اور پھر تیزی سے دیگر خطوں تک پھیل گئی، جس میں پاکستان بھی شامل ہے۔
پاکستان میں میتھامفٹامین کا بحران 2000 کی دہائی میں عروج پر پہنچا، جب اسمگلنگ کے منظم نیٹ ورکوں نے بڑی مقدار میں آئیس افغانستان اور ایران جیسے ہمسایہ ممالک سے پاکستان تک پہنچائی۔ اس کا وافر طور پر دستیاب ہونا اور اس کی خصوصیت، جو انسان کو توانائی، ہوشیاری اور خوشی میں اضافہ کرتی تھی، نے اسے نوجوانوں، طلبہ اور پیشہ ور افراد کے لیے خاص طور پر پرکشش بنا دیا۔ یہ دوا نہ صرف ان افراد کو راحت پہنچانے کا وعدہ کرتی تھی جو تعلیمی یا سماجی دباؤ کا شکا
ر تھے، بلکہ ان کی زندگیوں میں ایک خطرناک انقلاب لے آئی، جس نے ان کی تقدیر اور مستقبل کو ایک نیا رخ دے دیا۔
یہ بحران صرف ایک دوا کے پھیلاؤ کا قصہ نہیں بلکہ ایک عمیق المیہ ہے جس میں سماج کی پیچیدگیاں، نوجوانوں کے خواب، اور حقیقت کا کڑوا سچ چمکتا ہے۔ اس نے نہ صرف ان کی جسمانی حالت کو متاثر کیا بلکہ ان کی ذہنی سکونت اور جذباتی صحت کو بھی شدید نقصان پہنچایا، اور یوں ایک اور نسل کو تباہی کی دہلیز پر لا کھڑا کیا۔
میتھامفٹامین: نوجوان ذہنوں کو چاٹتا خاموش عذاب:
’آئس‘آج پاکستان کی نوجوان نسل کو دیمک کی طرح اندر ہی اندر چاٹ رہی ہے۔ ملک میں اس نشہ آور شے کا پھیلاؤ نہایت تشویش ناک صورت اختیار کر چکا ہے، بالخصوص وہ نوجوان جو تعلیم یافتہ ہیں اور جن کی آنکھوں میں ترقی کے خواب ہیں۔ 2020 کی دہائی کے اوائل میں، بالخصوص کراچی، لاہور اور راولپنڈی جیسے شہری مراکز میں، آئس کے استعمال میں ایک خطرناک اضافہ دیکھنے میں آیا۔
روایتی نشہ آور اشیاء جیسے ہیروئن کے مقابلے میں میتھامفٹامین ایک مختلف اور چالاک دشمن ہے — کیونکہ یہ براہِ راست انسانی دماغ کے ڈوپامین نظام پر حملہ آور ہوتی ہے۔ وہی نظام جو انسان کی توانائی، موڈ، اور ارتکازِ فکر کا ذمہ دار ہے۔ اس کی فطرت میں ایسی چالاکی پوشیدہ ہے کہ یہ سیدھا نوجوانوں کے سب سے حساس مقام — ان کے ذہنی دباؤ اور تعلیمی کشمکش — پر ہاتھ رکھتی ہے۔
یہ نشہ نوجوان طلبہ کو ان ہی کے ذہن میں ایک مصنوعی، مگر پُرسکون دنیا میں لے جاتا ہے — ایک ایسی دنیا جہاں نہ امتحان کی گھڑیاں ہوتی ہیں، نہ معاشرتی تقاضوں کا شور، اور نہ ہی ناکامیوں کا خوف۔ لیکن اس خوابیدہ دنیا کی قیمت بہت بھاری ہے: وہ اپنے اردگرد کی حقیقی دنیا سے کٹ جاتے ہیں، اپنے خاندان، دوستوں، اور خوابوں سے بیگانہ ہو جاتے ہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ان کے دماغ ایک طویل، مگر مصنوعی نیند میں گم ہو گئے ہوں — ایسی نیند جس سے جاگنے کا مطلب اکثر روحانی، ذہنی، اور جسمانی بربادی ہوتا ہے۔
آئس سے بچاؤ: احتیاط، آگاہی، اور بحالی کی ضرورت
آئس کا زہر صرف جسم کو نہیں، روح کو بھی کھوکھلا کر دیتا ہے۔ اس کے خلاف سب سے مضبوط ہتھیار “آگاہی” ہے۔ ہمیں بطور معاشرہ اس خاموش تباہی کے خلاف اجتماعی شعور پیدا کرنا ہوگا۔ نوجوانوں کو یہ سمجھانا وقت کی اہم ضرورت ہے کہ وقتی سکون کی قیمت اکثر عمر بھر کے پچھتاوے میں چکانی پڑتی ہے۔ والدین، اساتذہ، اور کمیونٹی رہنماؤں کو چاہیے کہ وہ نوجوانوں سے صرف توقعات نہ رکھیں، بلکہ ان کے ساتھ کھل کر بات کریں، ان کے دباؤ کو سمجھیں اور ان کے ذہنی بوجھ کو ہلکا کرنے میں ان کے مددگار بنیں۔
اس کے ساتھ ساتھ تعلیمی اداروں میں ذہنی صحت سے متعلق سیشنز، ہیلپ لائنز، اور منظم کونسلنگ سروسز کا قیام ضروری ہے تاکہ نوجوان کسی خوف یا شرم کے بغیر مدد حاصل کر سکیں۔ سوشل میڈیا اور دیگر پلیٹ فارمز پر اس موضوع پر بات چیت کو عام کیا جائے تاکہ ہر گھر تک یہ پیغام پہنچ سکے: “خاموشی تباہی ہے۔”
جہاں نقصان ہو چکا ہے، وہاں امید اب بھی زندہ ہے۔ پاکستان میں کئی منظم اور بااعتماد بحالی مراکز (rehabilitation centers) کام کر رہے ہیں، جیسے “سیرینیٹی کلینک”، “وِلنگ ویز”، اور “نو آؤٹ” جیسے ادارے، جو نشے میں مبتلا نوجوانوں کو عزت، سمجھداری اور مستقل توجہ کے ساتھ زندگی کی طرف واپس لانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ بحالی کا سفر آسان نہیں، مگر ناممکن بھی نہیں — بس پہلا قدم چاہیے۔
یہ وقت ہے کہ ہم بحیثیت قوم جاگ جائیں۔ اگر آج ہم نے ہاتھ نہ بڑھایا، تو کل ہمارے ہاتھوں سے وہ نسل پھسل جائے گی جو کل کا پاکستان ہے۔
مہرین خان، صحافی