83

یہ کیسے فرار ہوئے؟طاہر یاسین طاہر

المیہ یہ نہیں کہ ہم دہشت گردی کا شکار ہیں،بلکہ المیہ یہ ہے کہ یہ سب دین و مذہب کے نام پر ہو رہا ہے۔ایک نام نہاد’’ خلافت کے قیام‘‘ کی باتیں کی جارہی ہیں اور جنت کے ٹکٹ سر عام فروخت کیے جا رہے ہیں۔جب بھی ہم پاکستان میں دہشت گردی اور اس کے پھیلاؤ کی بات کرتے ہیں تو ہم روس افغان جنگ کو کسی صورت فراموش نہیں کر سکتے۔ یہی وہ وقت تھا جب پاکستان کو جہادی کیمپ کے طور پر استعمال کیا گیا اور نئے نئے جہادی طبقات نے جنم لیا۔مدارس کی بھرمار اور غریب گھرانوں کے بچوں کی’’جہادی‘‘ سرپرستی اسی عہد کی افسوسناک یادگاریں ہیں۔معاشرے میں عدم برداشت،تشدد اور قتل و غارت گری کی کئی ایک وجوہات ہو سکتی ہیں مگر دہشت گردانہ فکری رویے اور فرقہ وارانہ عدم برداشت بہر حال دین کے نام پر ہی پروان چڑھائے گئے۔یہ زہر اس قدر پھیلا کہ اس سے معاشرے کو بچانے کے لیے اب پاک فوج کو دہشت گردوں کے خلاف ایک جارحانہ آپریشن بھی کرنا پڑ رہا ہے۔اگرچہ ہمارا معاشرہ اس زہر ناکی کا شکار ہو چکا ہے اور ہم ہزاروں جانوں کی قربانی بھی دے چکے ہیں ۔موجودہ آپریشن ضربِ عضب اگرچہ معاشرے کو دہشت گردوں سے پاک کرنے کے لیے شروع کیا گیا ہے اور اس کے مثبت نتائج بھی سامنے آرہے ہیں مگر ابھی ہمیں بہت لمبا سفر طے کرنا ہے۔معاشرے میں کئی ایک تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔تعلیمی رحجانات اور افراط و تفریط کی پالیسیوں پر نظرثانی،مدارس کے نصاب کو جدید تعلیمی ضروریات سے ہم آہنگ کرنا اور معتدل مزاج اساتذہ کا مدارس میں تقرر اہم اقدامات ہو سکتے ہیں،لیکن ایسا ابھی ہونا ممکن نہیں کیونکہ حکومتیں مذہبی سیاسی و غیر سیاسی جماعتوں سے کنی کتراتی ہیں۔وجہ صاٖ ف ظاہر ہے،کسی کو بھی اپنی تکفیر پسند نہیں،نہ ہی کوئی کسی خود کش ’’جنت پرواز‘‘ کی تیز رفتاری کا نشانہ بننا چاہتا ہے۔ورنہ حکومت اگر چاہے تو دنوں میں نہ صرف مدارس کا نصاب بہتر کر سکتی ہے بلکہ مدارس میں اساتذہ کے لیے ایک خاص تعلیمی معیار بھی مقرر کر سکتی ہے۔جس میں انگریزی،کمپیوٹر کی تعلیم کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی تعلقات کے ماہرین،فزکس،کیمسٹری،بیالوجی اور نفسیات کے اساتذہ کا تقرر بھی لازمی قرار دیا جا سکتا ہے۔مگر افسوسناک امر یہ ہے کہ یہ ساری چیزیں مولوی کو منظور نہیں۔وہ اپنے فکری رویے کو ہی اسلام سمجھتا ہے اور ظواہر پرستی اس کے نزدیک قربِ الہٰی کا سب سے بڑا ذریعہ۔اسی فکری مغالطے کے باعث ہم متشدد رویوں کے سامنے زخم زخم ہیں ۔ہمارا معاشرہ کیوں کر طالبان اور ان کے فکری حواریوں کی کارروائیوں کا نشانہ بنا؟ اور اس میں کس کس کا کتنا کردار ہے؟ تاریخ کے طالبعلم اس سوال کا جواب ضرور ڈھونڈ نکالیں گے۔ہم البتہ یہ ضرور سمجھتے ہیں کہ اس گھناؤنے کھیل میں کج فہم ملائیت کے ساتھ ساتھ حکومتوں کی جانب سے دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں سے صرفَ نظرنے دہشت گردوں کے حوصلے بلند کیے اور وہ اپنا فہمِ اسلام پورے معاشرے پر مسلط کرنے کو چڑھ دوڑے۔گذشتہ روز قومی روزناموں میںیہ خبر شائع ہوئی کہ ’’پنجاب سے تعلق رکھنے والے 214 انتہائی خطرناک دہشتگرد صوبہ سے فرار ہو گئے، ان کی فہرست دو صوبوں سے بھی شیئر کرنے کیلئے وزارت داخلہ نے خط لکھ دیاہے۔ ان دہشت گردوں نے مدرسوں میں دہشتگردی پھیلانے، فرقہ واریت کو فروغ دینے، بوگس این جی اوز کے ذریعے انتہائی خفیہ معلومات حاصل کرتے ہوئے دہشت گردی کے واقعات کرنےنوجوانوں کو دہشتگردی کی طرف راغب کرنے سمیت غیر ملکی دشمن ایجنسیوں کے ایجنڈے کے تحت پنجاب میں بدامنی پھیلانے کے لئے کئی کارروائیاں اور اقدامات کیے، قانون نافذ کرنیوالے اداروں نے ان کی فہرست مرتب کرتے ہوئے گرفتاریوں کیلئے تین پلان مرتب کر لیے ہیں۔ذرائع کے مطابق حساس ادارے نے ایک رپورٹ محکمہ داخلہ پنجاب کو بھجوائی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ یہ انتہائی خطرناک دہشتگرد ہیں جنہوں نے لاہور، راولپنڈی سمیت بڑے شہروں میں دھماکے کیے جبکہ ان سے تعلق رکھنے والے کالعدم تنظیموں کے سینئر عہدیداروں نے ماضی میں بڑے پیمانے پر دہشتگردی کی، اب یہ پنجاب میں موجود نہیں۔ ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ قانون نافذ کرنیوالے ادارے ان کی گرفتاریوں کیلئے آپریشن کر رہے ہیں اور ان کے رابطہ کاروں سے بھی تفتیش کی جا رہی ہے۔صوبائی وزیر داخلہ کرنل (ر)شجاع خانزادہ نے تصدیق کرتے ہوئے میڈیا کو بتایا کہ اس وقت دو سو سے زائد انتہائی خطرناک دہشتگرد جن کا تعلق پنجاب سے ہے وہ صوبہ سے غائب ہیں۔ انٹیلی جنس اداروں نے ان افراد کو حراست میں لینے کے لئے منصوبہ بندی کر لی ہے یہ جہاں کہیں بھی ہوئے ان کا خاتمہ کیا جائے گا۔
‘‘ ہمارا سوال مگر یہ ہے کہ کیا حکومت نے ان کالعدم تنظیموں کے سینئیر رہنماؤں پر بھی ہاتھ ڈالا یا ان کے ناموں کی میڈیا پر تشہیر کی؟جنھوں نے ہمارا معاشرتی سکون ختم کر کے رکھ دیا ہے۔کیا حکومت نے کالعدم تنظیموں کے ان سینئیر رہنماؤں،بلکہ سینئیر دہشت گردوں کی ’’پناہ گاہوں‘‘ کو سیل کیا ہے؟نہیں ایسا نہیں ہوا،اور یہی بگاڑ کی اصل وجہ ہے۔دہشت گردوں کی پناہ گاہیں کبھی بھی مقدس نہیں ہو سکتیں بے شک ان پناہ گاہوں کے ماتھے پر کسی مدرسے کا نام درج ہو یا کسی مسجد کا۔حکومت ایسے تمام افراد جو کالعدم تنظیموں کے سینئیر دہشت گرد ہیں پہلے ان کی پناہ گاہوں کو نشانہ بنائے تا کہ معاشرے کے سادہ لوح افراد کو پتا چل سکے کہ جنھیں وہ اپنا مذہبی رہنما مانتے ہیں ان کی اصل کیا ہے۔ ہمیں اس امر میں کلام نہیں کہ دہشت گردی کا کوئی بھی واقعہ دہشت گردوں کے سہولت کاروں کے بغیر ممکن نہیں۔یہی وہ سہولت کار ہیں جو نوجوانوں کو پہلے انتہا پسندی کی طرف راغب کرتے ہیں اور بعد میں انھیں تکفیری فتوؤں کے ذریعے’’جنت کے ٹکٹ‘‘ تقسیم کرتے ہیں۔یوں معاشرے میں انارکی اور انسان دشمنی کا بیج بونے والے یہ نام نہاد ’’شرفا‘‘ اگر بچ گئے تو اپنی تکفیری طبع کے باعث نئی نسل کو مسلسل’’جنت کے ٹکٹ‘‘ فروخت کرتے رہیں گے۔ہم فیصلہ کن مرحلے میں ہیں اور فیصلہ کرنے میں تاخیر نہیں کرنی چاہیے۔ہمارا یہ قومی فیصلہ ہونا چاہیے کہ دہشت گردوں کے ساتھ ساتھ ان کے سہولت کاروں سے بھی وہی سلوک کیا جائے گا جو دہشت گردوں کے ساتھ شمالی وزیرستان میں کیا جا رہا ہے۔ بے شک پنجاب سے دہشت گردوں کے فرار میں ان کے سہولت کاروں کا اہم کرداد ہوگا۔قانون نافذ کرنے والے ادارے اگر دہشت گردوں کے ساتھ ساتھ ان کے سہولت کاروں کے خلاف بھی آپریشن ضربِ عضب جاری رکھیں تو معاشرے کو اعتدال کی راہ پر ڈالا جا سکتا ہے۔{jcomments on}

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں