پچھلے دنوں میں پاکستان تھا۔ اپنے دوستوں کے ہاں آنا جانا لگا رہتا تھا۔ میرے ایک دوست جو ایک اچھے عہدے پر فائز ہیں انہوں نے مجھے اسلام آباد میں اپنے گھر آنے کی دعوت دی۔ وہی دوست کچھ عرصہ قبل تک گاؤں میں میں ہوتا تھا۔ وہ مجھ سے پانچ سال بڑا تھا مگر اس کے باوجود ہم نے اپنا بچپن گاؤں میں ایک ساتھ گزارا۔ میں اگلے دن اس کے گھر وقت پر پہنچ گیا۔ وہاں پر ہمیشہ کی طرح میرے دوست نے استقبال کیا اور مجھے خوش آمدید کہا، اس کے ساتھ اس کی چھوٹی چار سالہ معصوم بچی بھی تھی۔ مجھے بچوں سے محبت ہے اور مجھے ننھے پھول اچھے لگتے ہیں۔ میں اس بچی کے پاس گیا۔ اس نے میرے پاس آتے ہی مجھے کہنا شروع کر دیا کہ ’’انکل، انکل یہ دیکھیں میرے بابا نے نئی گاڑی لی ہے اور یہ بڑی گاڑی ہماری ہے اور ساتھ میں چھوٹی سی گندی گاڑی چاچوکی ہے۔ میرے بات ختم ہونے سے پہلے ہی اس نے دوبارہ کہا کہ انکل انکل یہ جو بڑا والا گھر ہے یہ ہمارا ہے اور ساتھ ایک گھر کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ وہ چھوٹا گھر چاچو کا ہے۔ اس کے بعد میں دوست اور اس کی بچی کے ساتھ اند ر چلا ہے۔ اندر جاتے ہی میرے دوست نے مجھے صوفہ پر بٹھایا اور خود اند ر چلا گیا۔ اس کے بعد وہ ننھی بچی مجھ سے باتیں کرتی رہی۔ وہ ہر بات میں یہی کہتی کہ یہ بڑے والی چیز میری ہے اور چھوٹی چیز کا نام لیتے ہوئے اپنے چاچو کا ذکر لازمی کرتی۔مجھے اس چھوٹی بچی کی باتوں نے بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیا۔ وہاں اس کے گھر کھانا کھا کر میں واپس اپنے گھر جا رہا تھا اور پورے راستے میں میری سوچ یہی تھی کہ ہم اپنے بچوں کو کیا سکھا رہے ہیں۔ ایک ننھی سی چار سال کی بچی سے یہ ملاقات شاید ہمیشہ یاد رہے۔ کیونکہ اس کی کہی ہوئی ایک ایک بات ہمارے معاشرے کی عکاسی کرتی ہے۔ ہم لوگ بڑے گھر بڑی گاڑی اور بڑے عہدے کی بنیاد پر خود کو بڑا سمجھنا شروع کر دیتے ہیں اور یہی خود کو بڑا سمجھنے کی عادت ہمیں اپنوں سے جدا کر دیتی ہے۔ یہی عادت ہمیں ایک دوسرے کے خلاف اکساتی ہے۔ ہم بعض اوقات اسی بنیاد پر دوستوں سے ملنا جلنا کم کر دیتے ہیں یہ سوچ کر کہ اس کا عہدہ اور معیار مجھ سے چھوٹا ہے۔ ہم اپنے آنے والی نسل کو یہی سکھا رہے ہیں اور یہی چھوٹی سی بات ہمیں اپنے دوستوں، رشتہ داروں اور عزیزوں سے جدا کرتی ہے۔جب ہم کسی بچے کے ذہن میں یہ بات ڈال دیں کہ ہمارا عہدہ بڑا ہے اور ہم دوسرے سے ہر شے میں بڑے ہیں تو یہی بچپن میں کچے ذہن میں پڑی ہوئی بات اس کو ساری زندگی یاد رہتی ہے اور انسان ہمیشہ دولت مند بننے کی سوچتا ہے کیونکہ انسان کے ذہن میں جو بچپن میں ڈال دیا جائے انسان بڑا ہو کر چاہتے ہوئے بھی نہیں بدل سکتا۔ اسی قسم کا بگاڑ معاشرے میں غریب اور امیر کے درمیان تقسیم ڈال دیتا ہے۔آج کل کا معاشرہ بھی اسی طرز پر جیتا ہے۔ امیر اور غریب کچھ نہیں ہوتا۔ تمام انسان برابر ہیں مگر جب ہم بچوں کی ایسی تربیت کریں گے تو امیر اور غریب کے درمیان ایک بہت بڑا فرق پید ا ہو جاتا ہے جو کہ انسان کو ایک دوسرے سے دور کر دیتا ہے۔اگر دو رشتہ داروں میں یہی فرق ہو تو ایسی ذہنیت والے لوگ اپنے رشتہ داروں سے بول چال تک بند کر دیتے ہیں اور اس کی ایک ہی وجہ ہوتی ہے کہ انسان اپنے آپ کو دوسرے سے افضل سمجھتا ہے۔حالانکہ ہمارا دین ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ ایسی باتیں اسلام میں جائز نہیں ہیں۔مگر ہم اپنے بچوں نہ ہی دین کی تربیت دیتے ہیں اور نہ ہی ایسی باتیں سکھاتے ہیں جس سے بچوں کو سیکھنے کا موقع ملتا ہے۔آج کل کے دور میں انسان دولت کا پجاری بن چکا ہے اور یہی دولت کی خواہش انسان کو ایک دوسرے سے دور کر رہی ہے۔ ابھی بھی ہم لوگوں کے پاس وقت ہے۔ اگر انسان یہ چاہتا ہے کہ مستقبل میں کوئی برائی پیدا نہ ہو تو ہمیں اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت پر زور دینا ہو گا۔ وہ تربیت جو انسان کو ایک دوسرے سے دور نہ کرے بلکہ ایک دوسرے سے قریب کرے۔ ہمیں اپنے بچوں کو سکھانا ہو گا کہ یہ مال و دولت کچھ بھی نہیں بلکہ یہ دنیا کا دکھاوا ہے۔ اصل چیز انسان کا آپس میں پیار اور خلوص ہے۔ وہ پیار جو اسلام ہمیں سکھاتا ہے۔ اسلام ہمیں یہ بتاتا ہے کہ اپنے لئے جو کچھ پسند کرتے ہو اپنے مسلمان بھائی کے لئے بھی وہی پسند کرو۔ہمیں آج سے ہی خود کو پرکھنا ہو گا۔ ہم جو غلطی کر چکے ہیں اس کی معافی مانگ کر ہمیں خود کو اور اپنے آنی والی نسلوں کو بدلنا ہو گا۔ ہمیں اپنی آنے والی نسل کو یہ تربیت دینی ہو گی کہ یہ مال اور دولت کچھ بھی نہیں بلکہ فریب ہے۔ا صلی دولت تو پیار اور محبت ہے۔ وہ محبت جو دو لوگوں کو ایک دوسرے کے قریب کر دیتی ہے۔ مجھے امید ہے کہ ہم اپنے آنی والی نسل کو بہتر بنانے کے لئے لازمی کوشش کریں گے ورنہ ہماری آنے والی نسل بھی یہی کہے گی کہ یہ بڑا گھر میرا ہے۔{jcomments on}
91