ساٹھ کی دہائی میں جب یونین کونسلز کا قیام عمل میں آیاتو اس وقت سے یونین کونسل ساگری بھی قائم ہوئی 1964ء میں اس کے پہلے چئیر مین راجہ اکبر تھے جن کا تعلق اوجریالہ سے تھاان کے بعد دوسرے
چئیر مین ساگری سے تعلق رکھنے والے سیٹھی عبدالغفور تھے اس کے بعد ایک لمبا عرصہ بلدیاتی انتخابات نہ ہو سکے 1979ء میں چھنی عالم شہر سے تعلق رکھنے والے چوہدری محمد افتخار نے یہ عہدہ سنبھالا اسی دور میں گاؤں میں ترقیاتی کاموں کا ایک دور شروع ہوااور پہلی بار گاؤں کی گلیوں کو اینٹوں سے پختہ کیا گیا۔اگلے چئیر مین سیٹھی عبدالمجید تھے1983ء میں توپ منکیالہ سے تعلق رکھنے والیچوہدری امیر افضل اور 1985ء میں ایک بار پھر چئیرمینی کا عہدہچوہدری افتخار کے سر سجاان کا تعلق پیپلز پارٹی سے تھا 1988ء میں ساگری سے تعلق رکھنے والے سجاد بٹنے یہ عہدہ سنبھالا اور 1992ء میں موجودہ ناظم بابو چوہدری غضنفر اقبال کے چچا زاد بھائی چوہدری فضل الٰہی(مرحوم)نے یہ تاج اپنے سر سجایااس کے بعد پھر بلدیاتی اداروں کے حوالہ سے خاموشی رہی۔2000ء میں صدر پرویز مشرف نے دوبارہ بلدیاتی اداروں کو فعال بنایا اور یونین کونسل میں چئیر مین کی بجائے ناظم کے نام سے الیکشن کروائے گئے تو نثار بیگ ناظم بنے بعد ازاں وہ ڈسٹرکٹ سیشن جج بنے تو ان کی جگہ بابو چوہدری غضنفر اقبال کو ناظم منتخب کر لیا گیا اس کے بعد 2002ء اپریل میں ہونے والیدوبارہ انتخابات میں راجہ شہزاد یونس اور وفاقی وزیر داخلہ کے دست راس شیخ ساجد الرحمٰن کی جوڑی کا مقابلہ بابو غضنفر اقبال چوہدری اور راجہ سید اکبر سے تھا۔ون ٹو ون مقابلہ کے بعد فتح کا سہرا بابو غضنفر اقبال گروپ کے سر سجا ۔اگر ترقیاتی کاموں کے حوالہ سے یونین کونسل ساگری پر نظر دوڑائی جائے تو پہلے تعلیمی نظام کو دیکھا جائے قدیم شہر ہونے کے باوجود یہاں ابھی تک لڑکوں یا لڑکیوں کا ڈگری کالج کا وجود نہیں ہے جس کی وجہ سے یہاں کی بچیاں 25سے 30کلو میٹر دور راولپنڈی شہر جانے پر مجبور ہیں جس کی وجہ سے کافی بچیاں اعلیٰ تعلیم سے محروم رہ جاتی ہیں۔گورنمنٹ ہائر سکینڈری سکول ساگری گرلز اور بوائز کو اپ گریڈ کو کر دیا گیا ہے لیکن ابھی تک کمرے،فرنیچر اور اساتذہ مہیا نہ ہو سکے جس سے معصوم طالب علم آرٹس کی تعلیم حاصل کرنے پر مجبور ہیں گرلز ہائیر سکینڈری سکول میں 2004ء کے بعد کوئی انگلش ٹیچر موجود نہیں ہے۔
یونین کونسل ساگری کا علاقہ پوٹھوہار ٹاؤں کے زیر انتظام آتا ہے لیکن انتظامیہ کی عدم توجہی کی وجہ سے صگائی کا انتظام نہ ہونے کے برابر ہے دوسری طرف دیہی مرکز صحت ساگری کی بلڈنگ ایک بھوت بنگلے کا منظر پیش کر رہی ہے جہاں پر ادویات کی کمی کا رونا تو رویا جاتا ہے لیکن مقامی سیا سی عہد داران اس کو حل کرنے سے قاصر نظر آتے ہیں بلڈنگ کی حالت اتنی ناگفتہ بہ ہے جا کسی بھی وقت زمین پر سجدہ ریز ہو سکتی ہے۔
عوام کی سہولت کیلئے گیس اور پانی انتہائی ضروری ہے لیکن یہاں اور بھی سیاسی چپقلش نے کام دکھایا ہے ساگری مین واٹر سپلائی کو شروع کیا گیا تو بعد ازاں مجید آباد کا کنکشن کاٹ دیا گیا اور وہاں کی عوام کو اس سہولت سے محروم کر دیا گیا اگر گیس کی حالت کو دیکھا جائے تو کچھ علاقہ جن میں موضع سنال،ترہالہ بگیال،قدیمی گاؤں توپ منکیالہ اور ڈھکالہ کے علاوہ کافی چھوٹے بڑے گاؤں ایسے ہیں جنکو گیس کی لائن صرف اس وجہ سے نہ دی گئی کیونکہ اس میں سیاسی اداکاروں کو اپنا کو کائی فائدہ نظر نہ آیا اور ان گاؤں کو کھلم کھلا زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔
یونین کونسل ساگری میں،منکیالہ ٹوبہ اور ہندؤں کی عبادت گاہیں موجود ہیں لیکن مقامی نمائندوں کی بے حسی اور محکموں کی عدم توجہی سے وہ اس وقت ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں اور لوگوں کی عقلمندی دیکھنے کا لائق ہے کہ وہ ان میں جانور باندھتے اور بھوسا ڈالنے کا کام کرتے ہیں اگر سڑکوں کی حالت کو دیکھا جائے تو انتہائی نہ گفتہ بہ ہیساگری سے مین جی ٹی روڈ جانیوالی لنک روڈ اس وقت ایک عجیب منظر پیش کر رہی ہے دوسری طرف منکیالہ سے ڈھکالہ لنک روڈ بھی کھنڈرات کا منظر پیش کر رہی ہے گزشتہ دنوں وفاقی وزیر داخلہ نے ایک کروڑاناسی لاکھ کی گرانٹ کا اعلان کیا تھا لیکن ابھی تک وہ صرف اعلان تک ہی محدود ہے۔
شیخ ساجد الرحمٰن جو کہ چوہدری نثار علی خان کے دستراس ہیں وہ اگر چاہتے تو اس وقت ساگری اتک ماڈل قصبہ بن چکا ہوتاوہ کروڑوں کے پروجیکٹ کے افتتاع کرنے کیلئے دوسرے علاقوں کا رخ کرتے ہیں جہاں بخوشی وہ گلے میں مالا ڈال کر فوٹو سیشن کرواتے ہیں لیکن انہوں نے کبھی ساگری کے حوالہ سے کبھی کام کرنے کی کوشش نہ کی یہ سوال ابھی تک قائم ہے۔
دوسری طرف ساگری میں جو بھی ترقیاتی کام ہوئے ہیں وہ مشرف دور میں ہوئے اور اگر یہ کہا جائے کہ وہ سابق ناظم بابو غضنفر اقبال نے کروائے تو غلط نہ ہو گا ۔ساگری یونین کونسل کی عوام نے ہمیشہ سے ہی مسلم لیگ کو سپورٹ کیا چاہے وہ کسی بھی شکل میں ہو(ن) کی یا (ق) لیگ لیکن اس یونین کونسل کی عوام کو ہمیشہ سبز باغ دکھائے گئے مقامی سیاسی نمائندے صرف اور صرف ولیمہ اور جنازے کے ساتھ ساتھ تھانہ کی سیاست میں سر گرم عمل نظر آئے لیکن عملی کاموں میں نہیں اگر یہی ان کا وطیرہ رہا تو ان کا نام صرف بورڈوں تک ہی محدود رہے گا یونین کونسل ساگری کی عوام اپنے ترقیاتی کاموں کے لئے نمائندوں کی طرف دیکھ رہی ہے بقول شاعر کہ ہمیں تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔۔{jcomments on}