اس علاقہ یعنی کہ یونین کونسل بشندوٹ میں 1993 سے آباد ہیں یعنی آج سے30سال قبل ہم اس علاقہ میں آئے اس وقت جس جگہ ہم رہ رہے ہیں اس وقت اسکے اردگرد کسی بھی گھرکانام ونشان ناتھااس علاقہ میں پہلا گھر ہمارا بنالیکن اسکے اطراف میں تھوڑے فاصلے پرکچھ دوری پرگھر موجودتھے شمال کی جانب میں کلرسیداں روڈ مشرق کی جانب آراضی بانڈی اوربارہ دری جبکہ مغرب کی سمت چھجیالہ کے لوگ آباد تھے لیکن گزرتے وقت کے ساتھ لوگ اس علاقہ کی طرف متوجہ ہوئے آمدورفت ہوتی رہی پھر دیکھتے ہی دیکھتے اس علاقہ میں کثیر تعداد میں گھربھی بننا شروع ہوگئے اورکثیرتعدادمیں لوگ بھی رہائش پذیر ہوتے چلے گئے یوں اس علاقہ میں لوگ آبادہوناشروع ہوئے آج اس علاقہ میں سینکڑوں کی تعداد میں لوگ رہتے ہیں اورگھروں کی تعداد دن بدن برق رفتاری سے بڑھتی ہی چلی جارہی ہے لیکن سہولیات کانام ونشان موجود نہیں ناتواس علاقہ کو سڑک میسر ہے ناپکاراستہ اور ناہی گیس وغیرہ جب ہم یہاں رہناشروع ہوئے اس وقت سے لیکر آج تک عوامی نمائندوں نے اس علاقہ کی طرف رخ کرنا شروع کیاتھا
وقتاً فوقتاً آتے رہے علاقائی مسائل اور علاقہ کی مجموعی صورتحال کاجائزہ بھی لیتے رہے اس علاقہ کے مسائل کے حل کیلئے وعدے بھی ہوتے رہے لیکن ناتومسئلہ کاحل نکالاجاسکااور ناہی ترجیحی بنیادوں پرکوئی کام ہوسکا الیکشن آتے رہے عوامی نمائندے بھی آتے رہے لیکن وہی وعدے وہی تسلیاں وہی مسائل کچھ بھی نابدلہ اب توہمارے اطراف میں لوگوں کی کثیرآبادی موجودہے چندقدم کے فاصلہ پر مین کلرسیداں روڈ بھی ہے لیکن اگربارش ہوجائے تومین کلرسیداں روڈ تک پیدل بھی پہنچنامشکل ہوجاتاہے چہ جائیکہ گاڑی یاموٹرسائیکل مین روڈ تک یاپھرمین روڈسے گھرتک لے جایاجائے اگراس دوران مریض کو ہسپتال منتقل کرناپڑے تو ایمبولینس مین کلرسیداں روڈپرکھڑی ہوتی ہے ہمیں مریض کواپنی مدد آپ کے تحت اٹھاکرسڑک تک پہنچانا ہوتاہے اس وقت جس تکلیف کاسامنااہل علاقہ کوکرناپڑتاہے اس کااندازہ صرف وہی لوگ کرسکتے ہیں جواس پریشانی سے گزرے ہوں یونین کونسل بشندوٹ میں پختہ راستہ اورکارپٹ روڈ کاجال بھی بچھایاجاچکاہے ماسوائے ہمارے اس علاقہ کے یہاں عرصہ 30سال سے ہم دیکھتے اورسنتے چلے آرہے ہیں ہرآنیوالے الیکشن میں امیدوارآتے ہیں الیکشن کی آمدکیساتھ ہی ان عوامی نمائندوں کی آمدورفت شروع ہوجاتی ہے یہاں ہرسیاسی جماعت کے لوگ آتے ہیں ووٹ کامطالبہ بھی کرتے ہیں اور بدلہ میں علاقائی مسائل کے حل کی یقین دھانی بھی کرواتے ہیں
لیکن الیکشن کے گزرتے ہی انکی آمدورفت کاسلسلہ تھم جاتاہے اگلے الیکشن سے قبل وہ اس علاقہ کارخ نہیں کرتے چاہیں وہ ہاریں یاجیتیں اس سے ناتوان عوامی نمائندوں کوکوئی فرق پڑتاہے اورناہی اس علاقہ کی عوام کو حالانکہ اگردیکھاجائے تو علاقہ کی تعمیر وترقی منتخب عوامی نمائندوں کی ذمہ داری ہے اسکے لیے ناتو ووٹ کو ڈھال بنایاجاسکتاہے اورناہی ان پختہ راستوں،کارپٹ روڈ،اور پکی گلیات کاووٹ کے لین دین سے کوئی تعلق ہے لیکن پاکستان کی تاریخ میں یہی وہ بنیادی عوامی حقوق ہیں جو الیکشن کی کامیابی میں اصل کنجی سمجھے جاتے ہیں باربار انہی مسائل کاانہی حالات کاانہی کاموں کاسہارالیکرعوام کی ہمدردیاں سمیٹی جاتی ہیں یہ عوام کے بنیادی حقوق میں شامل ہے کہ ان کیلئے آسانیاں پیداکریں انکے حقوق کا خیال رکھاجائے عوام کو بجلی،گیس،روڈ،پختہ گلیات، روڈ سمیت انکے مسائل انکی دہلیز پرحل کرنامنتخب نمائندوں کی ذمہ داری بھی ہے اورانکے منصبی فرائض میں بھی شامل ہے لیکن یہاں الٹی گنگا بہتی ہے الیکشن کے موسم میں تو عوامی نمائندے عوام کے دکھ درد میں شریک ہوتے ہیں انکی خوشی غمی میں صف اول میں نظرآتے ہیں انکی آواز پردوڑے چلے آتے ہیں عوام کی ہاں میں ہاں ملاتے نظرآتے ہیں لیکن افسوس یہ طفل تسلیاں صرف الیکشن کے ووٹ والے دن تک محدود ہیں منتخب ہونے کے بعد عوام ان سے ملاقاتیں بھی کرتی ہے انکویاددہانی کرواتی ہے لیکن عوامی مسائل جوں کے توں اہل علاقہ کی عوامی نمائندوں اورحکومت وقت سے اپیل ہے کہ ہمارے بنیادی مسائل ترجیحی بنیادوں پر حل کئے جائیں اہل علاقہ کوسڑک،پختہ راستہ اورگلیات جیسی سہولیات کی فراہمی میں کردار ادا کریں تاکہ عوام اس پریشانی سے نجات حاصل کرسکیں۔