ظفر رشید/خطہ پوٹھوارخوبصورتی کیساتھ ساتھ تاریخی حیثیت بھی رکھتا ہے لیکن کچھ علاقے ناصرف تاریخی بلکہ قدیمی حیثیت سے بھی پہچانے جاتے ھیں ان تاریخی و قدیمی علاقوں میں ایک نام بشندوٹ کابھی ہے اس علاقہ میں اگرچہ کچھ عرصہ قبل آبادی بہت کم تھی لیکن وقت کی برق رفتاری کہ ساتھ اب اس یونین کونسل کہ غیرآباد علاقہ بھی برق رفتاری س آبادھونا شروع ہوچکے ہیں مجھے وہ وقت یاد ہے جب میرے والد محترم نے1993 ء میں یونین کونسل بشندوٹ صاحب دھمیال میں زرخریدجگہ پر مستقل طورپرسکونت اختیار کرنیکی سوچ بچارکے بعد یونین کونسل بشندوٹ میں نئی آبادی کی بنیاد رکھی جب1993 میں ہم اپنے والدین کے یست شفقت اور زیر سایہ اس سنسان غیرآباد اور ویراں جگہ آباد ھونے کیلئے تیارھوئے تواسوقت ارگرد،قرب وجوارمیں کسی مکان کانام ونشان بھینہیں تھا یوں ہم نے اس ویران علاقہ کومکین اول کے طورپرسب سے پہلے آبادکے ہمارے یہاں آناور گھرتعمیرکرنے قبل اس علاقہ کوویران و سنسان،تصور کیاجاتاتھاجب ھم نے یہاں آباد ھونے کا فیصلہ کیاتو وقت کی برق رفتاری کیساتھ ساتھ لوگ بھی اس طرف متوجہ ہوئے لگے اوریوں دیکھتے ھی دیکھتے یہ ویران علاقہ آبادی کامنظر پیش کرنے لگا اسوقت کا ویران علاقہ آج کثیر تعدادگھروں کہ قیام کہ ساتھ سینکڑوں لوگوں کی آبادی کا منظر پیش کررہا ہے رات کی تاریکی میں بجلی کی روشن قمقموں یاپھردن کے اجالامیں رنگ برنگے مکانات ایک کثیر تعداد میں مکانات واضح اکثریت کامنظر پیش کرتی ہے۔یہ علاقہ اب تینوں اطراف سے آبادی کی لپٹ میں آچکاہے اس کے اطراف میں آراضی بانڈی،بارہ دری،منھاس پورہ،شاہ باغ،چھجیالہ،کے علاؤہ مارکیٹ،اور شادی ھال بھی واقع ہے رفتہ رفتہ لوگوں کی توجہ کی وجہ سے اس علاقہ کی آبادی آئے روز بڑھتی ہی جار ہی ہییہ آبادی اب دو حصوں میں تقسیم ہوچکی ہے اس علاقہ کی کچھ آبادی یونین کونسل بشندوٹ اور کچھ آبادی یونین کونسل غزن آباد میں شمار کی جاتی ھے یونین کونسل بشندوٹ اور غزن آباد میں شمارہونے کہ باوجود یہ آبادی بنیادی سہولیات جیسے پختہ گلیات،سڑک،گیس وغیرہ سے محروم ہے مین کلرسیداں روڈ سے متصل ہونے کہ باوجودہم پختہ راستہ نہ ہونے کی وجہ سے د و ر ہیں دو یونین کونسل ک ے درمیان ہنے کے باوجود عوام کودونوں طرف سے کسی بھی عوامی نمائندہ،یا سیاسی قدآور شخصیت کا کوئی فائدہ حاصل نا ہوسکااس علاقہ کی طرف، یا علاقائی صورتحال پر توجہ دینے کیلئے کوئی بھی سیاسی شخصیت متحرک نظر نھی آتی‘جسکی وجہ سے آج کہ جدید دور میں بھی ا ہل علاقہ سڑک یا پختہ گلیات سے محروم ہیں اور قدیمی علاقہ میں قدیم طرز پر بنیادی سہولیات سڑک پختہ گلی اور گیس سے محرومی کی صورت میں گزر بسر کرنے میں اھل علاقہ پریشانی سے دوچارہیں یہ محرومی کب تک رہی گی اس بارے میں صحیح اندازہ لگانایاپھر کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا‘ اس علاقہ کوزیادہ ترلوگ نئی آبادی کہ نام سے پکارتے ورجانتے ہیں ۔ رفتہ رفتہ اسکی آبادی بڑھتی گئی اور آج اس گاؤں میں 150کہ قریب گھر آباد ہیں جو دن بدن برق رفتاری سیبڑھتیھی جارھے ھیں 1993 سے لیکر 2005 تک ھم نے 12 سال بغیر بجلی کہ بھی بسرکیے ر ات کوکبھی لالٹین تو کبھی موم بتی،اور کبھی گیس لیمپ جلا کر گزارہ کرتے ہم رات کی تاریکی میں ارد گرد نظر دوڑات ے تو ہمیں اپنے اس گاؤں کے سوا ہر طرف روشنی نظرآتی تو ہم یہ سوچتے کہ ہ نجانے کب ہم بھی اس نعمت سے لطف اندوز ہوں گئے الحمد اللہ بجلی کی نعمت سے توآج ہم مسفید ہور ہے ہیں لطف اندوز ہو رہے ہیں لیکن دیگر سہولیات کا فقدان ہے اس علاقہ میں آباد ھونے والے گھروں کی تعداد میں اضافہ ھوتاگیاتو یونین کونسل میں کھڑے ھونے والے ہرامیدوارکو ووٹ اور ووٹرنظرآنے لگے جو وقتاًفوقتاًچکر بھی لگاتے،لیکن الیکشن کے دن سورج کہ غروب ہوتے ہی یہ ووٹ لینے والے غائب ہوجاتے پھراگلے الیکشن تک انکی زیارت ہمیں نصیب نہ ہوتی‘ الیکشن سے قبل اور الیکشن کہ دن تو ہم ان کی مسکراہٹ سے مستفید ہوتے،انکی زیارت بھی ہمیں نصیب ہوتی لیکن وہ اس دن کہ گزرتے ہی روپوش ہوجاتی قومی و صوبائی الیکشن ہوں یا بلدیاتی،امیدوار تو بدلتے رہے لیکن اگر کچھ نابدلا تو اس علاقہ کی صورتحال نابدلی ہمارے علاقائی مسائل جوں کہ توں برقرارہیں ضروریات زندگی میں سڑک،پختہ گلی یاپھر پختہ راستہ بھی بھی ضروری ہے جس اہمیت بارش اور خراب موسم میں ہی سمجھ آتی ہے جب ہرطرف بارش کہ پانی سے کیچڑ وغیرہ کی صورتحال ہو اور مین کلرسیداں روڈ کے بلکل قریب رہنے کے باوجود پانچ منٹ کا فاصلہ 20 منٹ میں طے ھو کپڑے بھی پانی اور کیچڑ سے لت پت ہوں،اگر اس بارش کے موسم میں گاڑی یا موٹر سائیکل گھر سے سڑک تک یاپھر مین روڈ سے گھرتک لیکرجانا ہوتو یہ تقریباً نا ہی ممکن دکھائی دیتا ہے خوشی کہ موقع پر بھی خراب موسم کی وجہ س اھل علاقہ کو بہت ساری مشکلات سے وچار ہونا پڑتا ہے خددانخواستہ اگر کسی مریض کو اس دوران گھر سے ہستپال منتقل کرنا ہو تو وہ کسی بھی چیلنج سے کم نہیں ایسی صورتحال میں پختہ راستہ کتنا ضروری ہے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کیا۔ اہل علاقہ کی موجودہ حکومت اور منتخب نمائندوں سے گزارش ہے اہل علاقہ کے بنیادی مسائل پر نظرثانی کرکہ انہیں پختہ راستہ سمیت دیگر سہولیات فراہم کر تے ہوء ے اپنے علاقہ کی بہتری اورتعمیر وترقی میں اپناکردار ادا کریں۔
339